سرمایہ کاری‘ مواقع اور چیلنجز
پاکستان اور بحرین کا اقتصادی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ میں اپنی تجارتی حیثیت منوانے میں مدد ملے گی بلکہ برادر ملک کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ گزشتہ روز دورۂ بحرین کے دوران دارالحکومت منامہ میں کاروباری برداری سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان بردار ملک بحرین کے ساتھ اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کیلئے تیار ہے۔ زراعت‘ آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں دونوں ممالک ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں‘ بحرین کے کاروباری اداروں کے ساتھ مل کر ہم نئی راہیں کھول سکتے ہیں‘ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم مضبوط تعلقات کو معاشی تعاون میں تبدیل کریں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے خلیج تعاون کونسل (جی سی سی)کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے حوالے سے بھی امید ظاہر کی کہ جلد اس معاہدے پر بھی دستخط ہو جائیں گے۔
جی سی سی میں سعودی عرب‘ کویت‘ بحرین‘ عمان‘ قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے اہم خلیجی ممالک شامل ہیں۔ پاکستان اور خلیج تعاون کونسل میں آزاد تجارت کا معاہدہ 2004ء سے التوا کا شکار ہے‘ اگرچہ دو برس قبل ایک عبوری معاہدہ طے پایا تھا‘ تاہم چھ خلیجی ریاستوں کے ساتھ آزادانہ تجارت کا یہ پہلا پاکستانی معاہدہ ہو گا‘ جس سے رکن ممالک کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے حجم میں اضافہ ہو گا اور مشرقِ وسطیٰ کے خطے کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مزید فروغ پائیں گے۔ آزاد تجارتی معاہدے سے توانائی‘ صحت‘ خوراک وزراعت‘ سلامتی‘ نقل وحمل‘ ماحولیات‘ ثقافت اور تعلیم جیسے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو بہتر بنانے کے مواقع میسر آئیں گے جبکہ اشیا اور خدمات پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح میں نمایاں کمی ہو گی اور ان کی مارکیٹ تک رسائی کو آسان اور محفوظ بنایا جائے گا۔ یہ تمام پیشرفت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب پاکستان کو معاشی استحکام‘ روزگار کے مواقع اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ دوسری جانب خلیجی ممالک پاکستان کے ساتھ سلامتی اور سکیورٹی کے معاملات میں تعاون بڑھانا چاہتے ہیں؛ چنانچہ یہ معاہدہ فریقین کے دوطرفہ مفادات کے تحفظ کا ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی معاشی نظم وضبط کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ملکی معیشت اب استحکام کی جانب گامزن ہے‘ محصولات میں اضافہ ہو رہا ہے‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں ٹھہرائو ہے‘ روپے کی قدر برقرار ہے اور معاشی اٹھان کے لیے ماحول سازگار ہے‘غرضیکہ معیشت کی ترقی کے امکانات بجا طور پر روشن ہیں‘ تاہم ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور سیاسی محاذ آرائی کا ماحول معاشی ترقی کی راہ میں اب بھی بڑی رکاوٹ ہے۔

امن واستحکام کے قیام کے بغیر کوئی بھی معاشی پالیسی پائیدار ثابت نہیں ہو سکتی جبکہ سیاسی ہم آہنگی نہ صرف داخلی امن کو فروغ دیتی ہے بلکہ بین الاقوامی برادری میں بھی ملک کا مثبت تاثر اجاگر کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشی حکمتِ عملی میں امن و امان اور سیاسی استحکام کو بھی جگہ دی جائے۔ سرمایہ کار‘ خواہ اندرونی ہوں یا بیرونی‘ اس امر کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ پالیسیوں میں تسلسل رہے گا‘ امن وامان کی صورتحال قابو میں رہے گی اور معیشت کے استحکام کیلئے سنجیدگی اور جذبہ برقرار رہے گا۔ اس وقت ہمیں سکیورٹی صورتحال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی سطح پر بھی ماحول بہتر بنانے کی ضرورت ہے تا کہ ہمارا تشخص ایک عملی‘ کارآمد اور مثبت ذہنیت رکھنے والے سماج کے طور پر مستحکم ہو۔ بیرونی سرمایہ کاری اسی وقت سودمند ثابت ہو سکتی ہے جب داخلی طورپر بھی ماحول سازگار ہو۔ اس وقت یہی سب سے بڑا چیلنج ہے کہ امن وامان کے قیام اور سیاسی اتفاقِ رائے کو قومی ترجیح بنایا جائے تاکہ معاشی کامیابیوں کا تسلسل برقرار رہے اور ملک ترقی واستحکام کی راہ پر گامزن ہو سکے۔