ہانگ کانگ آگ، انتباہ
ہانگ کانگ میں 36منزلہ آٹھ رہائشی عمارتوں میں لگنے والی آگ پر دو روز کے بعد قابو پا لیا گیا ہے۔ اس واقعے کو 1948ء کے بعد ہانگ کانگ کی تاریخ کا سب سے ہلاکت خیز سانحہ قرار دیا جا رہا ہے جس میں 128افراد ہلاک اور 75 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ 200 سے زائد اب بھی لاپتا ہیں۔ ابتدائی تحقیقات میں آگ لگنے کی حتمی وجہ تو معلوم نہیں ہو سکی مگر یہ بات سامنے آئی کہ ان عمارتوں میں آگ سے بچاؤ کا نظام کام نہیں کر رہا تھا جس کی وجہ سے اتنا زیادہ جانی نقصان ہوا۔ یہ المیہ ہمارے لیے ایک واضح انتباہ ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی بلند و بالا رہائشی و کمرشل عمارتوں کا رجحان بڑھ رہا ہے مگر ان میں آگ سے بچاؤ کے نظام پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔

کراچی میں تو یہ صورتحال اور بھی سنگین ہے۔ گزشتہ ماہ ہونے والی نیشنل فائر سیفٹی کانفرنس میں انکشاف کیا گیا تھاکہ کراچی کی 80فیصد عمارتوں میں آگ سے بچاؤ کا کوئی بندوبست نہیں جبکہ 90فیصد عمارتوں میں ایمرجنسی راستے بھی نہیں۔ ہانگ کانگ کی آگ اور ہمارے شہروں کی عمارتوں میں فائر سیفٹی کی ناقص صورتحال ایک ہی سبق سکھاتی ہے کہ صرف قوانین اور ضوابط بنانا کافی نہیں‘ ان پر عملدرآمد ضروری ہے۔ متعلقہ حکام کو چاہیے کہ کسی بڑے جانی نقصان سے بچنے کیلئے ملک بھر میں تمام رہائشی اور کمرشل عمارتوں میں فائر سیفٹی کے قواعد پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے‘ اور جن عمارتوں میں یہ کوڈز نظر انداز کیے گئے ہوں‘ ان کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ شہریوں کی زندگی محفوظ بنائی جا سکے۔