اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغانستان علاقائی سلامتی کا خطرہ

26نومبر کی رات افغانستان سے ڈرون کے ذریعے تاجکستان میں چینی کارکنوں پر حملہ نہ صرف علاقائی سلامتی کے حوالے سے ایک نئے خطرے کا الارم ہے بلکہ یہ پاکستان کے ان خدشات کا عملی اظہار ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے ظاہر کیے جا رہے تھے۔ پاکستان‘ جو گزشتہ دو دہائیوں سے افغانستان کی برآمد کردہ دہشتگردی کا نشانہ بنا ہوا ہے‘دنیا کو مسلسل باور کرا رہا ہے کہ افغانستان علاقائی سلامتی کیلئے ایک نئے خطرے کے طور پر ابھر رہا ہے اور عدم استحکام کا شکار یہ خطہ دہشت گردوں کی نئی آماجگاہ بن رہا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں بھی کسی منظم حکومت کے نہ ہونے کے سبب افغانستان علاقائی شدت پسند تنظیموں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ یہ تنظیمیں ہمسایہ ممالک میں دہشتگردی میں بھی ملوث تھیں۔ طالبان اور امریکہ کے دوحہ معاہدے کی یہ ایک بنیادی شرط تھی کہ افغان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ افغان عبوری حکومت نے اسکی یقین دہانی بھی کرائی مگر یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ پچھلے چار برس سے پاکستان افغانستان میں پناہ گزیں دہشت گرد گروہوں کے نشانے پر ہے اور یہ خدشات مسلسل ظاہر کیے جارہے ہیں کہ دہشتگردی کا یہ خطرہ صرف پاکستان کیلئے نہیں‘ یہ ایک علاقائی سطح کا سکیورٹی خطرہ ہے اور خطے کے دیگر ممالک اور عالمی مفادات بھی ان خطرات سے محفوظ نہیں۔

افغان سرزمین سے تاجکستان میں ڈرون کے ذریعے چینی ورکرز کو نشانہ بنانے کے واقعے نے اس اندیشے کو عملی صورت میں ثابت کر دیا ہے۔ گزشتہ برس ایران کے علاقے چابہار میں سکیورٹی فورسز کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ‘ جس میں 11اہلکار جاں بحق ہوئے‘ میں بھی افغان دہشت گردوں کے ملوث ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ادھرپاکستان میں افغان سپانسرڈ دہشت گردی کے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے اور اس ضمن میں طالبان رجیم کی جانبداری اور دہشت گردوں کی پشت پناہی بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان اس حوالے سے طالبان رجیم کو بارہا شکایت کر چکا مگر ادھر سے کبھی اس کا مثبت جواب نہیں آیا۔ اس صورتحال میں یہ باور نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ طالبان رجیم کو دہشتگردی کا ناسور ختم کرنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ افغانستان کی جانب سے دہشت گردی کی سرپرستی اور سہولت کاری صرف پاکستان کیلئے مسئلہ نہیں ‘خطے کے دیگر ممالک بھی اس خطرے کی زد میں آ سکتے ہیں ‘ اور آ رہے ہیں۔

تاجکستان میں چینی شہریوں پر حملہ ایک ایسے گروپ نے کیا ہے جو ماضی میں بھی افغانستان میں موجود شدت پسندوں کیساتھ جڑا ہوا تھا ۔ یہ حملہ اس دہشت گرد گروہ کے افغانستان میں موجود شدت پسند وں کیساتھ روابط کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ صورتحال اس خطے کے ممالک سے مل کر بیٹھنے اور متحد ہو کر خطرے کا مقابلہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔علاقائی ممالک کو متحد ہو کر افغان عبوری حکومت پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ افغانستان سے کسی بھی ملک پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اگر طالبان رجیم ایسے حملوں کی روک تھام سے قاصر ہے تو اسے انسدادِ دہشت گردی کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دینا اور خطے کی سلامتی کو درپیش خطرات سے لاتعلقی کا اظہار کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس گھنائونے کھیل سے انہیں الگ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ ماہ ماسکو میں ہونے والے ساتویں ماسکو فارمیٹ کے موقع پر افغانستان سمیت اس کے تمام ہمسایہ ممالک نے انسدادِ دہشت گردی کیلئے علاقائی فریم ورکس کو مؤثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ افغان سرزمین کو علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرہ بننے سے روکنے کیلئے ضروری ہے کہ اس اعلامیے کو فی الفور عملی قالب میں ڈھالا جائے۔ پاکستان‘ چین‘ ایران‘ روس‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور ازبکستان کو انسدادِ دہشت گردی‘ علاقائی سلامتی اور امن و امان کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ یہ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں‘ پورے خطے اور دنیا کی سلامتی کا سوال ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں