اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

دہشت گردی کے مراکز

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے سینئر صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں خطے کی صورتحال کے بارے کئی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اُن کے مطابق افغانستان میں دہشتگردی کے مراکز بدستور فعال ہیں اور القاعدہ اور داعش سمیت متعدد دہشت گرد تنظیمیں افغان سرزمین کو استعمال کر رہی ہیں۔افغانستان کی جانب سے پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خطرات سے نمٹ رہا ہے۔طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد دراندازی اور دہشت گردی کے اس سلسلے میں توقع کے برعکس نمایاں اضافہ ہوا۔ کسی بھی ملک کیلئے اس قسم کی صورتحال قابلِ برداشت نہیں ہو سکتی۔ پاکستان افغان عبوری حکومت کو اس خطرے کی جانب مسلسل متوجہ کرتا اور مناسب اقدامات کا تقاضا کرتا آیا ہے مگر طالبان کا ردعمل کبھی بھی تسلی بخش اور کافی ثابت نہیں ہوا۔ پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے قابلِ تصدیق میکانزم کا مطالبہ کیا ہے تاکہ سرحد پار دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکی جا سکے۔

یہ مطالبہ کسی بھی لحاظ سے غیر معمولی نہیں‘ دنیا بھر میں سرحدی نگرانی اور انسدادِ دہشت گردی کے معاہدے معمول کی بات ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ افغان حکام کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دیتی۔ عالمی اور علاقائی سطح پر دہشت گردتنظیموں سے لاتعلقی اختیار کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود طالبان رجیم نے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے وعدے پر عمل نہیں کیا۔نائب وزیر اعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار کا یہ بیان کہ پاکستان آج بھی افغان حکومت سے کھلے دل کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہے‘ پاکستان کے سنجیدہ سفارتی رویے اور امن کیلئے مستقل کوششوں کا ثبوت ہے۔ اس کے باوجود جب افغان عبوری حکومت دہشت گرد عناصر کے خلاف مؤثر اقدامات نہیں کرے گی تو نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ پاکستان کو قومی سلامتی کیلئے یکطرفہ اقدامات کرنا پڑیں۔ افغانستان سے پاکستان کو درپیش خطرات صرف بارڈر سکیورٹی تک محدود نہیں سمگلنگ کے مسائل بھی اپنی جگہ جس کا سالانہ معاشی نقصان تقریباً ساڑھے تین ہزار ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ جب ریاستی کنٹرول کمزور ہو‘ معیشت تباہ ہو اور حکومت بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہو جائے تو انتہا پسند تنظیموں کیلئے مواقع پیدا ہوتے ہیں‘ یہی صورتحال آج افغانستان میں نظر آ رہی ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ طالبان رجیم اس سلسلے میں کوئی مؤثر قدم اٹھانے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا جس کے نتیجے میں پاکستان سمیت خطے کے سبھی ممالک کیلئے سکیورٹی خدشات غیر معمولی طور پر بڑھ گئے ہیں۔اگلے روزافغانستان سے شدت پسندوں کا تاجکستان میں چینی شہریوں پر حملہ اس علاقائی خطرے کو واضح کرتا ہے جس کا اندیشہ ان سطور میں پچھلے کئی سال سے ظاہر کیا جا رہا تھا۔ پاکستانی فورسز نے بے پناہ قربانیوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں لیکن ہمسایہ ملک میں دہشتگردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں موجود رہیں تو یہ خطرات کیونکر ختم ہو سکتے ہیں؟ اس کیلئے سرحدی نگرانی‘ انٹیلی جنس شیئرنگ اور مشترکہ کارروائیوں پر مبنی قابل اعتماد معاہدے ناگزیر ہیں۔پاکستان نے اپنے حصے کا کام کر دکھایا ہے‘ سرحد پر باڑ لگائی‘ چیک پوسٹیں بڑھائیں‘ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیے اور سفارتی سطح پر بھی مسلسل رابطے برقرار رکھے‘ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان عبوری حکومت اپنے وعدوں اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔ اگر طالبان واقعی چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں ایک ذمہ دار حکومت کے طور پر تسلیم کرے تو انہیں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف واضح‘ سخت اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں