اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مفاہمت اور ہم آہنگی کی ضرورت

خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں اور وفاقی حکومتی عہدیدار دہشتگردی اور سرحدی صورتحال کے پیش نظر گورنر راج کا عندیہ دے رہے ہیں۔ حکومتی بندوبست میں بلا شبہ یہ ایک غیر معمولی اقدام ہو گا جس کیلئے صدرِ مملکت کو حاصل اختیارات 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے خاطر خواہ حد تک محدود کئے گئے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 232 کی شق ایک کہتی ہے کہ اگر صدر کو اطمینان ہو جائے کہ سنگین ایمرجنسی موجود ہے جس میں پاکستان کی سلامتی یا اس کا کوئی حصہ جنگ یا بیرونی جارحیت سے یا اندرونی انتشار سے دوچار ہے جس پر کسی صوبائی حکومت کیلئے قابو پانا ممکن نہ ہو‘ تو وہ ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کر سکتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی موجودہ صورتحال جس میں سیاسی انتشار بھی ہے‘ دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور افغانستان کی جانب سے درپیش خطرات بھی‘ وفاقی حکومت اسے غیر معمولی قرار دیتے ہوئے صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

اگرچہ آئین میں کچھ ایسی شرائط بھی موجود ہیں جو صوبائی حکومت کا تحفظ کرتی ہیں‘مثال کے طور صوبائی حکومت کے قابو سے باہر داخلی انتشار کی وجہ سے ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے قراردادکی منظوری۔یہ آئینی شرائط بظاہر صوبائی حکومت کو تحفظ دیتی ہیں مگر گورنر راج کا مطالبہ صوبے اور وفاق میں بدگمانی میں اضافے کا یقینی سبب ہو گا؛ چنانچہ اس کے بجائے صورتحال کا بہترین حل یہ ہو گا کہ اُس مسئلے پر توجہ دی جائے جو اس بے یقینی اور بد گمانی کی بنیاد ہے۔ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ صوبائی حکومت اور وفاق میں سیاسی اختلافات انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ اس میں جہاں کچھ ذمہ داریاں وفاقی حکومت کی ہیں وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ کے پی حکومت سیاسی معاملات کو سلجھانے میں دانشمندی اور احتیاط کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ سابقہ وزیراعلیٰ نے بھی ایک سال سے زائد عرصہ دھرنوں‘ احتجاجوں اور سیاسی انتشار کو بڑھانے میں گزار دیا‘ موجودہ وزیراعلیٰ بھی اسی ڈگر پر ہیں۔ صوبائی حکومت سیاسی اور حکومتی ذمہ داریوں میں توازن قائم کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتی‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ متعلقہ جماعت کو کوئی سیاسی فائدہ تو نہیں ہو ا مگر خیبر پختونخوا کے حکومتی مسائل اور عوامی مشکلات پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہیں۔ دہشتگردی کے واقعات روز کا معمول ہیں‘ افغانستان کی جانب سے درپیش خطرات انتہائی درجے کو پہنچ چکے ہیں‘ صوبائی دارالحکومت میں افغان مہاجرین کا ہجوم رپورٹ ہو رہا ہے‘ یہ لوگ سرحد بند ہونے کی وجہ سے نکل نہیں پارہے مگر ان کا ہونا خدشات سے خالی نہیں۔

گزشتہ قریب ڈیڑھ برس میں دیگر صوبوں میں کئی نئے عوامی منصوبے شروع ہوئے ہیں مگر خیبر پختونخوا کی حکومت وفاق کو قابل تقسیم محاصل کی عدم ادائیگی کا الزام دینے سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ اس مسئلے کا حل ٹکراؤ نہیں مفاہمت ہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کو اس پر خصوصی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ برس سے مسلسل ٹکراؤ اور الزام تراشی کی سیاست سے کچھ حاصل نہیں ہوا تو مفاہمت کو بھی موقع دے کر دیکھ لینا چاہیے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کو اس خدشے سے نکل جانا چاہیے کہ وفاق اور صوبے میں سیاسی اختلافات کے باوجود مفاہمت کا رویہ کمزوری پر محمول کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی سیاست اور وقت کا تقاضا ہے‘ اور سکیورٹی کے مسائل اورخطرات صوبائی حکومت کیلئے آگے بڑھنے اور مفاہمت اور ہم آہنگی کیلئے پہل کرنے کا موقع پیدا کر رہے ہیں۔ ان حالات کے براہ راست اثرات خیبر پختونخوا کے عوام پر اثر انداز ہو رہے ہیں‘ جن کیلئے صوبائی حکومت کو آواز اٹھانی چاہیے۔ گورنر راج کے نفاذ کی باتیں وفاق اور صوبے میں ہم آہنگی کے شدید بحران کا نتیجہ ہیں۔ بلاشبہ یہ کوئی قابلِ تعریف حل نہیں‘ صوبے اور وفاق کو بڑھتی ہوئی کدورتوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی سلامتی اور عوامی فلاح وبہبود کے مقاصد کو بہتر طور پر پورا کیا جا سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں