کھلے مین ہولز
اگلے روز کراچی میں ایک تین سالہ بچہ کھلے مین ہول میں گر کر جاں بحق ہو گیا۔یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں‘ آئے روز ایسے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ یہ سنجیدہ مسئلہ ملک کے ہر بڑے اور چھوٹے شہر کی کہانی ہے جہاں شہری انتظامیہ کی لاپروائی‘ ناقص منصوبہ بندی اور مناسب نگرانی کی کمی ایسے واقعات کو جنم دیتی ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ بارشوں میں پانی کی نکاسی کیلئے کھولے گئے‘ یا ناقص مٹیریل کی وجہ سے ڈھکنے ٹوٹنے کے بعد مین ہولز اس وقت تک کھلے رہتے ہیں جب تک یہ کسی حادثے کا سبب نہیں بن جاتے۔ کھلے مین ہولز ایسا مسئلہ نہیں جس سے صرفِ نظر کیا جا سکے‘ شہری انتظامیہ کو اس حوالے سے مستعدی دکھانی چاہیے۔ یہ مسئلہ مقامی حکومتوں کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔

اگر ملک میں مقامی حکومتوں کا فعال نظام اور ہر گلی اور محلے میں مقامی حکومتوں کا نمائندہ موجود ہو تو کھلے مین ہولز سمیت کئی مسائل مقامی سطح پر بروقت حل ہو سکتے ہیں۔ شہریوں کو خود بھی اس حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہم اپنے گھروں یا کاروباری مراکز کی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے صرف کرتے ہیں لیکن اپنے دروازے یا دکان کے سامنے کھلے مین ہول کو بند کرنے کیلئے چند سو روپے بھی خرچ نہیں کرتے۔ شہری انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی سے ادا کرے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا تدارک کیا جا سکے۔