دو ٹوک فیصلہ!
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ لوگ ہمارے مہمان تھے مگر اب نہیں ہیں‘ آپ کو خود ہی یہاں سے چلے جانا چاہیے بصورت دیگر آپ کو نکالا جائے گا۔ وزیر داخلہ کے اس بیان کو حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔افغانوں کے بارے میں ہمیشہ سے پاکستانیوں کے یہ تاثرات نہیں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے سبھی ہمسایہ ممالک میں سب سے بڑھ کر افغانوں کی آؤ بھگت پاکستان ہی نے کی۔ جس حوصلے‘ اعتماد اور سہولت کیساتھ افغانوں نے خود کو پاکستان میں پایا خطے کے کسی دوسرے ملک سے اس کا مقابلہ نہیں۔ مگر آج قریب نصف صدی بعد ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس بھائی چارے اور مثالی ایثار کا فائدہ کیا ہوا؟ جب خیر سگالی کے مثالی جذبے کے جواب میں دہشت گردانہ حملے ہوں تو یہ سوچنا ضروری ہو جاتا ہے۔

افغانوں کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ اگر وہ پاکستان کی سہولتوں سے جدائی کے شاکی ہیں تو انہیں اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے ذمہ دارافغان دہشت گرد ہیں اور ان دہشت گردوں کی پشتی بان عبوری افغان حکومت ہے جس نے انہیں نکیل ڈالنے کی کوشش نہیں کی نہ ہی اس کیلئے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستا نیوں کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ ان کی واپسی کا فیصلہ اگر اُن کیلئے پریشان کن ہے تو ان کی اس پریشانی کے ذمہ دار وہ خود‘ ان کے بھائی بند اور کابل میں اُن کے حکمران ہیں جنہوں نے اس حقیقت کو سرے سے نظر انداز کر دیا کہ ایک ایسا ملک جو کئی دہائیوں سے اُن کے دسیوں لاکھ بے گھر شہریوں کو پال رہا ہے کم از کم اسے تو اپنے سفاک ارادوں سے دور رکھا جائے۔ایسا نہیں ہوابلکہ عملی طور پر اس کے برعکس ہوا ہے کیونکہ 2021 ء میں طالبان کی واپسی کے بعد پاکستان میں دہشت گرد ی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہ سبھی واقعات افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں ملوث دہشتگردوں کی اکثریت کا تعلق افغانستان سے تھا بلکہ استعمال ہونے والا اسلحہ بھی افغانی تھا۔ طالبان رجیم نے پاکستان میں دہشت گرد عناصر کی شکایتوں کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے معاملات کو ہوا میں اڑایا۔اگلے روز نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار کہہ رہے تھے کہ دورۂ افغانستان میں انہوں نے افغان قیادت سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا‘ افغان قیادت سے کہا کہ چاہتے ہیں افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہو‘لیکن افغانستان کی کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آئی۔ پاکستان نے افغانستان سے کیے گئے وعدے پورے کیے مگر افغانستان کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی سے متعلق کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا۔
افغان عبوری حکومت اور دہشت گردوں کا گٹھ جوڑ پاکستان کو دفاعی نقطہ نظر سے ہر وہ قدم اٹھانے کی ضرورت کو واضح کرتا ہے جو پاکستان کی سلامتی کیلئے ناگزیر ہو۔ ان حالات میں جب افغان عبوری حکومت دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملہ آور ہے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کا وجود سکیورٹی رِسک ہے۔حالیہ کچھ بہت ہی گھناؤنے دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا براہِ راست تعلق اس رِسک کو مزید واضح کرتا ہے؛ چنانچہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو جہاں تک ممکن ہو جلد از جلد ملک سے رخصت کرنا چاہیے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ملک بھر میں جاری کریک ڈاؤن کے پیش نظر غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی بہت بڑی تعداد پشاور اور کوئٹہ منتقل ہو چکی ہے۔ معلوم نہیں کہ ہر دو صوبوں کی حکومتیں غیر قانونی افغان شہریوں کے غیر معمولی ہجوم پر نظر رکھنے کیلئے کیسے اقدامات کیے ہوئے ہیں البتہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات اور سکیورٹی خدشات میں غیر قانونی افغان شہریوں کی وجہ سے اضافہ ہو گا۔