انسدادِ دہشت گردی، یکسوئی لازم!
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے مسلسل بڑھتے واقعات پوری قوم کے لیے سخت تشویش کا باعث ہیں۔ گزشتہ روز ضلع بنوں میں میرانشاہ روڈ پر اسسٹنٹ کمشنر شمالی وزیرستان کی گاڑی پر فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں اسسٹنٹ کمشنر‘ دو پولیس کانسٹیبلز اور ایک شہری شہید جبکہ دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ اگرچہ پاکستان کو گزشتہ دو عشروں سے دہشت گردی کے شدید چیلنجز کا سامنا ہے تاہم 2014ء میں نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں نافذ کی جانے والی متفقہ قومی حکمت عملی سے 2017-18ء تک اس مسئلے پر اطمینان بخش حد تک قابو پا لیا گیا تھا۔2021ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد اس مسئلے نے ازسر نو سر اٹھایا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025ء میں پاکستان کو دنیا میں دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر رکھا گیا۔

ایک بین الاقوامی سکیورٹی ادارے کے اعداد و شمار اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ گزشتہ چار سال یعنی جب سے افغانستان میں طالبان رجیم آیا ہے‘ تب سے پاکستان کیلئے سکیورٹی خطرات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ 2022ء میں 2021ء کی نسبت دہشت گردی کے واقعات میں 36 فیصد‘ 2023ء میں 44 فیصد اور 2024ء میں 49 فیصد اضافہ ہوا۔ رواں سال یہ اضافہ 36 فیصد ہے اور یکم جنوری سے 30 نومبر تک دہشت گردی کے 982 واقعات ریکارڈ ہو چکے‘ جن میں 1080 سکیورٹی اہلکار اور 612 سویلین شہید ہوئے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے 90 فیصد واقعات ملک کے دو مغربی صوبوں‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہوئے اور وجہ ہے ان صوبوں کا افغانستان سے ملحق ہونا اور افغانستان سے دہشت گردوں کی در اندازی۔ رواں سال دہشت گردی کی کُل وارداتوں (982) میں سے 51 فیصد (504) صرف خیبر پختونخوا میں ہوئیں۔ عسکری قیادت خیبر پختونخوا میں بڑھتی دہشت گردی کی وجہ سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ کو قرار دے چکی ہے اور وفاقی حکومت دہشت گردی کے بلند گراف پر صوبائی حکومت کے عدم تعاون کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
وجہ جو بھی ہو‘ زمینی حقیقت یہ ہے کہ وفاق اور صوبے میں عدم اعتماد کا فائدہ دہشت گرد گروہ اٹھا رہے ہیں‘ جو ریاست کو زک پہنچانے کا کوئی موقع خالی نہیں جانے دیتے۔ اربابِ اختیار کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دو ریاستی ستونوں میں عدم تعاون کا رویہ ریاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے اور اس کا فوری ازالہ ہونا چاہیے۔ دہشت گردی کے اس عفریت کا مقابلہ اسی عزم اور جوش سے کرنا چاہیے جس کا مظاہرہ سانحہ اے پی ایس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں‘ وفاق اور صوبائی حکومتوں نے نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کر کے کیا تھا۔ ہمیں آج ایک بار پھر نیشنل ایکشن پلان جیسی متفقہ دستاویز کی ضرورت ہے‘ جس پر تمام سیاسی‘ انتظامی اور عسکری سٹیک ہولڈرز میں اتفاق پایا جاتا ہو۔
جب تک پوری قوم بالخصوص مذہبی‘ سماجی‘ قبائلی اور عسکری وسیاسی حلقے دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کی حکمتِ عملی کے حوالے سے یکسو نہیں ہوتے‘ اس وقت تک ایسے واقعات کی مکمل روک تھام یقینی نہیں بنائی جا سکتی۔ 2021ء میں سیاسی و عسکری قیادت نے نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان بھی مرتب کیا تھا جسے بعد ازاں ’وژن عزم استحکام‘ کے تحت مزید بہتر بنایا گیا مگر دہشت گردی کے بڑھتے واقعات یہ غمازی کر رہے ہیں کہ ان نکات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ ضروری ہے کہ اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیں اور یکسو ہو کر کام کریں۔ دہشت گرد ہماری صفوں میں موجود دراڑوں میں جگہ بنا چکے ہیں‘ ہمیں اتفاق و اتحاد اور کامل یکسوئی سے ان کو نکال باہر پھینکنا ہو گا اور انسدادِ دہشت گردی کیلئے ایک متفقہ حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔