اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

خونیں کھیل کیوں؟

منگل کے روز جاری کیے گئے پنجاب کائٹ فلائنگ آرڈیننس 2025ء میں مشروط طور پر بسنت منانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسی سال اکتوبر میں جب صوبائی حکومت کی طرف سے پتنگ بازی کی اجازت دینے کا فیصلہ سامنے آیاانہی دنوں لاہور میں ایک 21سالہ نوجوان قاتل ڈور سے لقمہ اجل بن گیا۔ نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ 18سال سے کم عمر افراد پتنگ بازی نہیں کر سکیں گے ‘ خلاف ورزی پر ان کے والدین دار ہوں گے‘ دھاگے سے بنی ڈور کی اجازت ہو گی ‘دھاتی یا کیمیکل والی ڈور کے استعمال پر سزا مقرر کی گئی ہے‘ علاوہ ازیں پتنگ باز تنظیمیں متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس رجسٹر ہوں گی۔

حکومت کا خیال ہے کہ ان شرائط کیساتھ ہونے والی بسنت محفوظ ہو گی‘ تاہم اندیشہ یہ ہے کہ ایک بار پابندی ہٹتے ہی منچلے مذکورہ آرڈیننس کی شرائط و ضوابط کو بھی ہوا میں اڑا دیں گے ۔ 2018ء میں بھی صوبائی حکومت نے مشروط طور پر بسنت منانے کی اجازت دی تھی لیکن ایک درجن سے زائد افراد کی قاتل ڈور سے موت کے بعد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔ ان گھناؤنے واقعات کے باوجود بسنت کے خونیں کھیل کی اجازت دینا ناقابلِ فہم ہے۔ انسانی جان کی قیمت کسی بھی تہوار سے کہیں زیادہ ہے۔ جشن کے نام پر موت بانٹنے والے اس کھیل کی اجازت دینے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ پابندی کے باوجود جو لوگ پتنگ بازی کے مرتکب ہیں ان کے خلاف کارروائی کو مزید سخت کیا جائے اور یقینی بنایا جائے کہ یہ خونیں کھیل ہمیشہ کیلئے رک سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں