گورننس مسائل اور حل
ملک عزیز میں رقبے‘ آبادی اور وسائل کی تقسیم میں عدم توازن اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے انتظامی اور سیاسی مسائل سے نمٹنے کیلئے صوبوں کی رائٹ سائزنگ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں نجی جامعات کی تنظیم کے زیر اہتمام چھٹی ریکٹرز کانفرنس میں ملک بھر سے سرکاری اور نجی جامعات کے سربراہان سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے اس مسئلے کا دوررس جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں مسائل کی حقیقی وجہ بڑے انتظامی یونٹس ہیں۔ ملک کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط اور منظم ہوگا تو ہی ادارے مضبوط ہوں گے اور بہتر پرفارم کر سکیں گے۔ انہوں نے اس تجویز کو دہرایا کہ ملک کی ہر ڈویژن کو صوبہ بنا نا چاہیے ‘ اور تمام انتظامی صوبوں کا بجٹ ان کی آبادی کے تناسب سے مختص ہونا چاہیے۔پاکستان میں تعلیم و صحت کی ابتری اور گورننس کے بحران کا جائزہ لیا جائے تو ان مسائل کے پیچھے غیر فعال اور فرسودہ انتظامی ماڈل بدرجہ اتم کارفرما نظر آئے گا۔یہی ملک کی پسماندگی کا بڑا سبب ہے۔

پاکستان کا انتظامی ماڈل اس لحاظ سے پوری دنیا کیلئے ایک کیس سٹڈی ہے کہ جہاں ایک صوبہ (پنجاب) ملک کی نصف سے زائد آبادی پر مشتمل ہے اور ایک (بلوچستان) کا رقبہ پورے ملک کے نصف کے برابر ہے۔ اس عجیب و غریب انتظامی تقسیم میں یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ ملک کے تمام علاقوں کو حکومت کی یکساں ترجیح میسر آ سکے اور پورا ملک مل کر ترقی کا سفر جاری رکھ سکے۔ صوبوں کا بیشتر بجٹ چند بڑے شہروں پر خرچ ہو جاتا ہے اور دور دراز علاقے بدستور محروم رہتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نظام‘ یہ انتظامی ڈھانچہ تبدیل کیے بغیر مختلف نتائج برآمد نہیں کیے جا سکتے۔ اس حوالے سے معاصر دنیا سے سیکھنا چاہیے۔ اس وقت دنیا میں لگ بھگ سولہ ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی دس کروڑ سے زائد ہے۔ اگر پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کی اوسط نکالی جائے تو ہر ملک میں کم و بیش 37 صوبے ہیں۔گیارہ کروڑ آبادی والے فلپائن میں 83 صوبے ہیں‘ جبکہ پاکستان کے ایک صوبے کی آبادی 12کروڑ سے زیادہ ہے۔ 1973ء میں آئینِ پاکستان کی تشکیل کے وقت ملک کی کُل آبادی لگ بھگ ساڑھے چھ کروڑ تھی‘ آج یہ پچیس کروڑ سے بڑھ چکی ہے۔
آبادی میں 285 فیصد اضافے کے باوجود ملک کی انتظامی بنیادیں آج بھی وہی ہیں‘ جو نصف صدی قبل تھیں۔ معاصر دنیا اس حوالے سے کوئی بھی دوسری مثال پیش کرنے سے قاصر ہے کہ جہاں گزشتہ پانچ دہائیوں سے انتظامی یونٹس جوں کے توں ہوں۔ پاکستان کا گورننس ماڈل اس انتظامی تقسیم کے نیچے دب چکا ہے اور صوبوں کے بڑے حجم کی بھاری قیمت ہمیں گورننس کے مسائل اور عوامی سہولتوں سے محرومی کی صورت میں چکانا پڑ رہی ہے۔ ہر صوبے میں‘ ایک کونے سے دوسرے کونے تک یہ احساس بتدریج بڑھتا جا رہا ہے کہ نہ صرف انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے بلکہ دیگر علاقوں والے ان کے حقوق غصب کر رہے ہیں۔ 2019ء میں ورلڈ بینک نے ’’پاکستان ایٹ ہنڈرڈ: گورننس اینڈ انسٹیٹیوشنز‘‘ کے عنوان سے ایک ہوشربا رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 2047ء میں‘ جب پاکستان کے قیام کو ایک صدی مکمل ہو گی‘ پاکستان کے بیشتر مسائل گمبھیر چیلنج بن چکے ہوں گے۔
اس رپورٹ میں صراحت کے ساتھ بتایا گیا کہ پاکستان کا موجودہ انتظامی ماڈل مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے قابل نہیں۔ آج چھ سال بعد ہی ہم یہ صورتحال وقوع پذیر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی ڈگر تبدیل کریں اور وقت کی پکار پر کان دھریں۔ بڑھتے گورننس مسائل اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ پاکستان کا چارصوبوں تک محدود رہنا ترقی وخوشحالی کے تصور کے منافی ہے۔ چھوٹے انتظامی یونٹس کے قیام ہی سے پاکستان کی گورننس کی خرابیاں رفع کی جا سکتی ہیں۔