اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغانستان‘ دہشت گردی کا نیا خطرہ

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی افغانستان سے متعلق رپورٹ نہ صرف پاکستان کے موقف کی توثیق کرتی ہے بلکہ اس رپورٹ نے طالبان کے اس دعوے کو بھی یکسر مسترد کر دیا ہے کہ افغان سرزمین سرحد پار دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہو رہی۔ تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی 16ویں جائزہ رپورٹ میں صراحت سے کہا گیا ہے کہ 2025ء کے دوران پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی نے 600 سے زائد حملے کیے ‘ اس تنظیم کو افغان رجیم کی جانب سے محفوظ پناہ گاہوں اور لاجسٹک سپورٹ کے علاوہ ہزاروں ڈالر بھی دیے جا رہے ہیں۔ 2020ء کے دوحہ معاہدے کے تحت افغان طالبان نے یہ عہد کیا تھا کہ افغانستان کو دیگر ممالک کے خلاف خطرہ بننے کیلئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا لیکن اس کے باوجود حالیہ عرصے میں پاکستان‘ تاجکستان اور ایران افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے تہران میں منعقدہ کانفرنس میں افغانستان کے تمام ہمسایہ اور علاقائی ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ افغان سرزمین سے ابھرنے والی دہشت گردی پورے خطے کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے اور اس کے خاتمے کیلئے علاقائی تعاون کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے مگر کابل حکومت کی جانب سے اس کانفرنس کے بائیکاٹ نے علاقائی امن کے قیام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اگست 2021ء میں طالبان کی کابل میں واپسی کے چار سال سے زائد عرصے بعد افغانستان کی سکیورٹی صورتحال پر بڑھتی عالمی تشویش کے تناظر میں تیار کی گئی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں طالبان رجیم کے دعووں کو ناقابلِ اعتبار قرار دیتے ہوئے تسلیم کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک مسلسل یہ رپورٹ کر رہے ہیں کہ داعش‘ ٹی ٹی پی‘ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہ نہ صرف افغانستان میں موجود ہیں بلکہ افغان سرزمین کو بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی اور تیاری کیلئے بھی استعمال کر رہے ہیں۔

طالبان کے ان دہشت گرد گروہوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ یو این مانیٹرز کے مطابق دہشت گردوں کو افغانستان میں ایسا ماحول میسر ہے جو ان کی تربیت اور تنظیمِ نو کیلئے سازگار ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے طالبان رجیم کے دہشت گردوں سے گٹھ جوڑ سے دنیا کو آگاہ کرتا چلا آ رہا ہے اور مذکورہ رپورٹ پاکستان کے موقف‘ اس کے تحفظات اور خدشات کی سو فیصد تصدیق کرتی ہے۔ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کے تنازع نے نہ صرف دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے بلکہ اس سے سرحدی کشیدگی‘ جھڑپوں‘ بارڈر بندش اور تجارت کی معطلی جیسے مسائل نے بھی جنم لیا ہے‘ جس کا سب سے متاثرہ فریق خود افغان عوام ہیں۔ پاکستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں کی بندش سے افغان معیشت کو یومیہ تقریباً ایک ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ اشیائے خوردنی اور طبی سہولتوں کے عدم دستیابی کے مسائل اس سے سوا ہیں۔ ریاستِ پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے سرحدوں پر دہشت گردوں کی نقل وحرکت پر قابو پانے کیلئے متفقہ لائحہ عمل اور ایک مستقل جوائنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی سمیت دو طرفہ تعاون کے تمام آپشن بھی کھلے ہیں۔ دوحہ کے بعد استنبول مذاکراتی ادوار میں معاملات کافی حد تک نمٹ چکے تھے مگر افغان وفد تحریری ضمانت دینے سے گریزاں رہا جس کی وجہ سے تاحال تعطل برقرار ہے۔ بعد ازاں سعودی عرب میں بھی ایک مذاکراتی دور ہوا مگر وہ بھی جو نتیجہ خیز نہیں رہا‘ تاہم پاکستان پُرامید ہے کہ افغانستان بدلتے حالات‘ ہمسایہ ممالک کے تحفظات اور عالمی اداروں کی رپورٹس پر دانشمندی سے کام لے گا اور علاقائی امن و استحکام کیلئے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرے گا۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں