نئے صوبوں کی ضرورت کااحساس
انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کی بحث سماجی شعور اور سیاسی دانش کا حصہ بنتی دکھائی دیتی ہے۔ ملکِ عزیز میں صوبوں کی تقسیم کی ضرورت کا احساس تو پہلے سے موجود تھا لیکن سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں سدِ راہ ثابت ہوتی رہیں ‘ یوں رقبے یا آبادی کی بنیاد پر اور انتظامی مسائل کی وجہ سے صوبوں کو تقسیم کرنے کی ناگزیر ضرورت کے باوجود اس معاملے میں پیش رفت نہ ہو سکی اور اسی مخمصے میں پون صدی گزر گئی۔ اس دوران ہمارے خطے سمیت دنیا بھر میں صوبوں کی تقسیم اور نئے صوبوں کے قیام کا عمل معمول کی کارروائی کے طور پر انجام پاتا رہا اور اس سلسلے میں کہیں سے مخالفت یا ضد کی خبر نہیں ملی‘ جیسا کہ ہمارے ہاں کی روایت بن چکی ہے ۔یہ روایت اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ صوبوں کی تقسیم کی ضرورت کو دبایا جاتا رہا اور انتظامی تقاضوں کے باوجود نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ سیاسی جماعتوں کی مخالفت مول لینے کے مترادف سمجھا گیا۔

تاہم خوش آئند تبدیلی یہ ہے کہ اب نہ صرف عوامی سطح پر نئے صوبوں کی ضرورت و اہمیت کا ادراک پیدا ہو چکا ہے اورعوام درپیش مسائل کو اس تناظر میں دیکھنے لگے ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے تاثرات سے بھی یہ نظر آنے لگا ہے کہ وہ نئی سوچ سے بڑی حد تک ہم آہنگ اور نئے صوبوں کے قیام کے جواز کو تسلیم کررہے ہیں۔ حالیہ دنوں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا ایک بیان اس حوالے سے قابلِ ذکر ہے اور ایک مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری کا۔ اس سے قبل ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کی جانب سے بھی نئے صوبوں کے مطالبے کی حمایت کا اظہار کیا جاچکا ہے ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ نئے صوبوں کے قیام کیلئے وہ عدلیہ سے رجوع کریں گے اور عدالتیں انصاف فراہم نہیں کریں گی تو عوامی رابطہ مہم چلائیں گے اور عوام سے بات کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے اگلے روزصحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انتظامی طور پر اگر نئے صوبے بنتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کی مخالفت کی جائے یا رد کیا جائے‘ جبکہ طلال چودھری نے دوٹوک انداز میں نئے صوبوں کے قیام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ نئے صوبے بالکل بننے چاہئیں‘ نئے صوبوں سے گورننس میں بہتری آئے گی‘جہاں گورننس اچھی نہیں وہاں نئے صوبے ضرور بننے چاہئیں۔
ملکِ عزیز کے زمینی حقائق اور درپیش مسائل کے پیشِ نظر صوبوں کی انتظامی تقسیم کے تصور کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔صوبوں کی انتظامی تقسیم کا کام اصولی طور پر بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا جیسا کہ بھارت سمیت متعدد ممالک میں ہوا۔ مسائل اور اسباب وہاں بھی وہی تھے جن کا یہاں سامنا کیا جارہا ہے‘ مگراُن ملکوں کے رہنماؤں نے مسائل کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے ان کا حل تلاش کرنے میں دیر نہیں کی مگر ہم پون صدی سے اسی بے بنیاد خیال سے چمٹے رہے کہ صوبوں کے حدود اربعہ کو جہاں ہے جیسے ہے کی بنیادپر قائم رکھنا قومی تقاضا ہے۔ اب جبکہ ملکِ عزیز کا ایک صوبہ آبادی میں اور دوسرا رقبے میں درجن بھر ملکوں کے برابر ہے اور مسائل بے محابہ بڑھ رہے ہیں ‘ وقت آگیا ہے کہ صوبوں کی انتظامی تقسیم کیلئے قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں دقیقہ فروگزاشت نہ کی جائے اور یقینی بنایا جائے کہ نئے انتظامی یونٹس کی تشکیل کا عمل جلد سے جلد مکمل ہو تا کہ وسائل اور اختیارات کی بہتر تقسیم کے ساتھ ملک اور قوم کی ترقی کو یقینی بنانے کے ناگزیر تقاضے پورے کیے جاسکیں۔
ایسے قومی امور قومی اتفاقِ رائے کا تقاضا کرتے ہیں اور یہ کام سیاسی رہنما‘ دانشمند اور دیگر صائب الرائے حلقوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ کام قومی ہم آہنگی سے مکمل ہونا چاہیے مگر صوبوں کی انتظامی تقسیم کا ضروری کام مزید تعطل و تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔