اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیاسی میثاق،قوم اور ملک کیلئے

قومی سیاست میں مفاہمت اورمکالمے کی گفتگو جنسِ نایاب ہو چکی ہے ؛چنانچہ جب بھی ایسے خوشگوار کلمات کہیں سے سنائی دیتے ہیں سیاسی رہنماؤں سے وابستہ امیدیں تازہ دم ہو جاتی ہیں۔ اتوار کو لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں ‘ جن میں وفاقی وزرا اور وزیر اعظم کے مشیر بھی شامل تھے ‘ نے اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور قومی ڈائیلاگ کو سیاسی و معاشی مسائل کا حل قرار دیا۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ سیاسی استحکام سے ہی معاشی استحکام ممکن ہے‘ سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھنے کو تیار نہیں ہوں گی تو ملک آگے نہیں بڑھے گا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تنقید کو برداشت کرنا اور اختلاف رکھنے والوں کی رائے سننا ترقی کا واحد راستہ ہے‘ کوتاہیاں سب کی رہی ہیں ‘ ان پر مثبت انداز میں بات ہونی چاہیے۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ اپنے آپ کو اہل ثابت کریں‘لڑائیوں میں پاکستانیوں کا اور کتنا وقت ضائع ہوگا۔سیاسی رہنماؤں کی ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں بھی اسکا ادراک ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں مل بیٹھنے کو تیار نہیں ہوں گی تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا نہ ہی سیاسی اعتبار قائم ہو سکتا ہے۔ معاشی استحکام بھی اسی صورت ممکن ہے جب سیاسی استحکام ہو ‘ اور سیاسی استحکام ایک دوسرے کو قبول کیے بغیر ممکن نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو شخصی اور ذاتی حملوں اور تعصب کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ صحت مند مقابلے کی سطح پر آنا چاہیے۔آپس میں بات کرنا ہو گی اور قومی ترقی میں حصہ داری کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چلنا سیکھنا ہو گا۔سیاسی قیادت کو ملک اور قوم کیلئے ڈرائیونگ فورس بننا چاہیے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں شراکت اقتدار اورسیاسی مد مقابل کی قبولیت کا جذبہ پنپ نہ سکنے کی وجہ سے سیاسی رہنما ؤں میں باہمی عداوت اور رنجش ختم نہیں ہو سکی۔

دنیا بھر میں جمہوری معاشروں میں کئی کئی سیاسی جماعتیں کام کرتی ہیں‘ ایک دوسرے سے اختلافات بھی ہوتے ہیں مگر اصولی اختلاف کو عداوت نہیں بننے دیا جاتا ‘یہی وجہ ہے کہ خوشی خوشی انتقالِ اقتدار کی رسم پوری ہوتی ہے‘ نہ جیتنے والا فاتحانہ احساسات سے مغلوب ہوتا ہے نہ ہارنے والا ہار تسلیم کرنے سے گھبراتا ہے۔ ہماری 78 سالہ تاریخ میں ایسے واقعات کیوں نہیں ملتے؟ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہماری سیاست جمہوری ثقافت سے آشنائی پیدا نہیں کر سکی۔ یوں ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش میں ہر بار ملک و قوم کی ترقی کے سفر میں نئی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ پاکستان کو قدرت نے غیر معمولی وسائل سے نوازا ہے۔ صرف معدنی اور جغرافیائی وسائل کی بات نہیں ہماری قوم باصلاحیت افراد کی قوم ہے‘ مگر دنیا کی کوئی قوم بھی اپنے فطری جواہر سے استفادہ نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کیلئے موافق ماحول میسر نہ ہو۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکا۔ تعلیم‘ صحت‘ خوراک اور انسانی ترقی کے دیگر لوازمات کے حوالے سے ہمارا شمار پسماندہ ریاستوں میں ہوتا ہے۔

ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈکس 2025ء کے مطابق جنوبی ایشیا میں صرف دو ممالک‘ پاکستان اور افغانستان‘ ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈکس میں ’کم انسانی ترقی‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس فہرست میں باقی 24 ممالک سب صحارا افریقہ سے ہیں۔ ان تشویشناک حالات کی بہت بڑی ذ مہ داری سیاسی عدم برداشت ‘ ہم آہنگی کا فقدان اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کی سیاسی روش سے ہے۔ سیاسی جماعتیں ہمہ وقت آپسی مڈ بھیڑ میں مصروف نہ ہوں اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے ایک دوسرے کی دست و بازو بنیں تو یہ منظر نامہ بد ل سکتا ہے ۔ اب بھی اصلاح ممکن ہے‘ بشرطیکہ سیاسی قیادتیں ایک دوسرے کی جانب صاف دل کیساتھ رجوع کریں اور سیاسی دھینگا مشتی کا سلسلہ ختم کر کے قومی مسائل کی جانب توجہ دی جائے۔ پاکستان ایسے سیاسی میثاق کا متقاضی ہے جو پاکستان‘ قوم اور آنے والی نسلوں کے لیے ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں