اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سفارتکاری اور معیشت

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار نے گزشتہ روز سالانہ نیوز بریفنگ میں کہا کہ پاکستان کی عالمی ساکھ میں نمایاں بہتری آئی ہے اوریہ پاکستان کی نتیجہ خیز‘ متحرک اور مبنی بر مقصد سفارتکاری کا نتیجہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خارجہ تعلقات اور سفارتکاری کے حوالے سے 2025ء بھر پور سال تھا۔ رواں برس ملکِ عزیز کے خارجہ تعلقات طویل عرصے بعد اس سطح پر پہنچے جہاں عالمی سطح پرملکی ساکھ میں واضح بہتری آئی اور پاکستان جنوبی ایشیا کی ایک بااثر ریاست کے طور پر نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔یہ پیشرفت متحرک‘ مربوط اور نتیجہ خیز سفارتکاری اور حکومتی و عسکری قیادت کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ یہ امر نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ اس حقیقت کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ درست خارجہ پالیسی قومی مفادات کے تحفظ اور عالمی اعتماد کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کو عالمی سطح پر سیاسی تنہائی‘ اقتصادی دباؤ اور سفارتی چیلنجز کا سامنا رہا‘ تاہم رواں سال پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں توازن‘ حقیقت پسندی اور معاشی ترجیحات کو مرکزی حیثیت دے کر عالمی برادری کیساتھ تعلقات کو ازسرنو استوار کیا۔

اس مؤثر خارجہ پالیسی کے باعث نہ صرف عالمی اعتماد بحال ہوا بلکہ ایک سنجیدہ‘ ذمہ دار اور تعاون پر یقین رکھنے والی ریاست کے طور پر پاکستان کی عالمی پہچان بھی مضبوط ہوئی۔ امریکہ کیساتھ معدنی وسائل میں سرمایہ کاری اور ترقی کے معاہدے‘ خلیجی دوست ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب کیساتھ دیرینہ تعلقات کو مشترکہ دفاعی معاہدے کے بندھن میں باندھنے کی پیشرفت‘چین کیساتھ باہمی تعلق کو مزید اونچی منزلوں تک لے جانے کے اقدامات‘ ایران کیساتھ تعلقات میں وسعت‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا کیساتھ باہمی تعلقات کی تجدید اور معاشی روابط کو مستحکم کرنے کا عزم‘ ترکیہ‘ آزربائیجان اوربنگلہ دیش کیساتھ تعلقات میں وسعت اس سال کی قابلِ ذکر سفارتی کامیابیاں ہیں۔2026 ء کا اصل چیلنج اس اعتماد کو معاشی شراکت داری میں تبدیل کرنا ہے۔ آج کی دنیا میں خارجہ پالیسی کا مرکز و محور معیشت بن چکا ہے اور وہی ممالک کامیاب سمجھے جاتے ہیں جو سفارتکاری کو اقتصادی ترقی کیلئے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔2025ء میں عالمی فورمز پر پاکستان کے مؤقف کو مؤثر انداز میں پیش کرنا اور بین الاقوامی قوانین و اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ملکی مفادات کا دفاع کرنا سفارتی کامیابی کی دلیل ہے‘ مگر2026ء اور اسکے بعد کے چیلنجز یہ ہیں کہ پاکستان اپنی سفارتی سرگرمیوں کو مزید فعال‘ پیشہ ورانہ اور نتیجہ خیز بنائے۔

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے‘ عالمی طاقتوں کے اتحاد ازسرنو تشکیل پا رہے ہیں اور اقتصادی مفادات خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو محض روایتی سفارتی تعلقات پر انحصار کرنے کے بجائے نئی منڈیوں‘ ابھرتی معیشتوں اور علاقائی بلاکس کیساتھ روابط کو وسعت دینا ہوگی۔دوست ممالک کیساتھ تعلقات میں بھی نئے زاویے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں تعلقات زیادہ تر سیاسی حمایت یا سٹریٹجک مفادات تک محدود رہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ان تعلقات کو باہمی معاشی مفادات‘ مشترکہ منصوبوں اور طویل المدتی اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کیا جائے۔ پاکستان کیلئے ہر خطے میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں بشرطیکہ انہیں مؤثر اقتصادی سفارتکاری کے ذریعے بروئے کار لایا جائے۔خارجہ محاذ پر رواں برس کی کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پالیسی درست ہو‘ ترجیحات واضح ہوں اور ادارہ جاتی ہم آہنگی موجود ہو تو پاکستان عالمی سطح پربلندمقام حاصل کر سکتا ہے اور اقتصادی ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ رواں سال پاکستان کی خارجہ پالیسی درست سمت میں گامزن رہی تاہم اصل امتحان اس پالیسی کے تسلسل‘ عمل درآمد اور نتائج کا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں