تازہ اسپیشل فیچر

قرآن روح کی غذا

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) قرآن اللہ کی نازل کردہ آخری کتاب ہے، اس کتاب کے بعد دوسری کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی، نہ ہونی ہے، نہ ہوگی، اس کتاب میں ہماری زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔

اسلام از آکمپلیٹ سسٹم آف لائف، قرآن بے مثل ومثال ہے، قرآن بے نظیر و باکمال ہے، قرآن سراپا جمال وجلال ہے، قرآن کا حرف حرف اپنے اندر معانی کا ایک جہاں آباد رکھتا ہے، قرآن کی ہر آیت روشنی ہے، ہر صفحہ نور ہے، ہر سورت رہنمائی ہے، ہر پارہ کہکشاں اور ہر جز خورشید جہاں ہے، قرآن ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، دل کا قرار ہے، روح کی غذا ہے۔

ایک مسلمان کی زندگی اس کے بغیر ادھوری ہے، نامکمل ہے، بے مقصد ہے، فضول اور بے کار ہے، وہ مسلمان ہی کیا جو قرآن سے لگاؤ نہ رکھتا ہو؟ وہ مسلم ہی کیسا جو قرآن کو نہ مانتا ہو؟ قرآن کو چومنا بھی ثواب، ہاتھ میں لینا بھی ثواب، محبت بھری نظروں سے دیکھنا بھی اجر سے خالی نہیں، ہم قرآن کریم کی تعظیم بھی کرتے ہیں، تکریم بھی کرتے ہیں، احترام بھی کرتے ہیں اور اکرام بھی کرتے ہیں، یہ ساری باتیں کرتے بھی ہیں، لکھتے بھی ہیں، سنتے بھی ہیں اور بولتے بھی ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ کی ایک شکایت کا ذکر کیا ہے جو شکایت حضورﷺ قیامت کے دن اپنے رب کے حضور اپنی امت کے بعض لوگوں کے بارے میں کریں گے، قریش اور مشرکین نے قرآن کی دعوت کو سننے سے انکار کر دیا تھا، صرف یہی نہیں بلکہ آپﷺ کی دعوت وتبلیغ کی ہر تدبیر کو ناکام کرنے کی کوششیں کیں حتیٰ کہ ایک دوسرے کو یہ تک کہا، ترجمہ: ’’اس قرآن کو مت سنا کرو اور (جب وہ سنانے لگے تو) تم شورشرابا شروع کر دیا کرو، شاید تم غالب آجاؤ‘‘ (فصلت:26) حضور اکرمﷺ کی شکایت کو اللہ نے قرآن میں ذکر فرمایا، ترجمہ: ’’اور کہیں گے رسول: اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا‘‘ (الفرقان:30)۔

ایک طرف قریش اور مشرکین کے اس طرز عمل پر غور کیا جائے اور دوسری طرف حضورﷺ جب قیامت کے دن ان جیسے لوگوں کیخلاف گواہ بن کر پیش ہوں گے اس چیز کو دیکھا جائے تو پھر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا محض ان باتوں سے ہی ہماری جان چھوٹ جائے گی جو پہلے پیراگراف میں لکھی گئیں؟ کیا اوپر ذکر کئے گئے تمام نعرے ایک سانس میں بآواز بلند کہہ دینے سے قرآن کا حق ادا ہو جائے گا؟ کیا یہ زبانی جمع خرچ ہمیں قیامت کے دن رسوائی سے بچالے گا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن پر ایمان لانا، قرآن کی تعظیم وتکریم اور احترام کرنا اور اس کو اللہ کی نازل کردہ آخری مقدس کتاب سمجھنا بھی ہمارے دین کے بنیادی عقائد میں شامل ہے اور اس کا بھی اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر و ثواب ہے، لیکن کیا صرف یہی کافی ہے؟ یہ وہ بات ہے جس کی طرف مجھے، آپ کو اور ہم سب کو متوجہ ہونا چاہیے، ہم ذرا اپنے طرز عمل، معمولاتِ زندگی پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کیا ہم قرآن مجید کے حقوق ادا کررہے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں کررہے تو ہمیں یہ فکر ہو کہ کب تک اور کہاں تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟

کیا حضرت عزرائیلؑ نے ہمارے پاس نہیں آنا؟ اگر آنا ہے تو پھر کیا ان کی آمد ہی کا انتظار کیا جائے؟ کیا ہم نے موت کے منہ میں نہیں جانا؟ اگر جانا ہے تو پھر کیا اس وقت کا انتظار ہے جب ہم لقمہ اجل بن جائیں گے؟ موت تو سب کو آنی ہے، ایک اللہ باقی ہے، اس کے علاوہ سب فانی ہے، چار دن کی زندگی ہے،دو دن تو آنے جانے میں گزرنے ہیں باقی کل دو دن ہیں۔ کچھ کرلینا چاہیے۔

ہم ذرا اپنے رویوں پر غور کریں کہ اگر کسی کا انٹرنیٹ ایک دن کیلئے بند ہوجائے یا موبائل میں پیکیج ختم ہو جائے تو ہم کتنے فکر مند اور بے چین ہوجاتے ہیں؟ ہفتے اور مہینے گزر جاتے ہیں لیکن ہمیں قرآن کھولنے کی توفیق نہیں ہوتی اور اس سے بھی افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیں کوئی فکر اور ٹینشن بھی نہیں ہوتی، یعنی ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم سے کوئی چیز چھوٹ گئی ہے، یہ انتہائی خطرناک اور مہلک بات ہے، اللہ تعالیٰ ہماری اور ہماری نسلوں کی اس سے حفاظت فرمائے۔

قرآن حکیم کو پڑھنا تو باعث ثواب ہے ہی‘ مگر اس نسخۂ کیمیا کا اصل مقصد اس کو سمجھنا ہے، قرآن کے ذریعے انسان نہ صرف اپنے خالق حقیقی کی معرفت حاصل کر سکتا ہے بلکہ اپنے وجود کے حقیقی مقاصد کو بھی پہچان سکتا ہے، وہ یہ جان سکتا ہے کہ اس کیلئے کامیابی اور نجات کی راہ کون سی ہے‘ اور کس طرزِ حیات میں دنیوی و اُخروی ناکامی ہے؟ قرآن کریم نے اپنے نزول کا مقصد خود کھول کر بیان کر دیا‘ فرمایا: ’’(یہ) کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے‘ بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ عقل نصیحت پکڑیں‘‘ (ص: 29)

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ پنجاب ہیں، 27 سال سے مختلف جرائد کیلئے لکھ رہے ہیں۔