وزیراعظم شہباز شریف بدھ کے روز قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے بینچوں پر گئے‘اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور اسد قیصر سے مصافحہ کیا۔ اپوزیشن رہنماؤں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ تھی۔ سیاست میں ایسی ہی روایات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے بانی پی ٹی آئی کی جیل کی مشکلات کا بطورِ خاص ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے لیڈر کو جیل میں مشکلات درپیش ہیں تو آئیں بیٹھ کر معاملات طے کریں۔ اس موقع پر وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے دور میں اپنی جیل مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ جو زیادتیاں ہمارے ساتھ ہوئیں وہ دوسروں کے ساتھ بھی ہوں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی پیشکش کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ ہمیں معلوم نہیں تاہم یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انہوں نے جمہوری روایت کی پاسداری کی ہے ورنہ قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو خان صاحب اپوزیشن رہنماؤں سے ملنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ اپنے سیاسی مخالفین کی نسبت شہباز شریف ایک قدم آگے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی خواہش اور کوشش اپنی جگہ مگر معاملات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں انہیں معمول پر لانے کیلئے محض ایک مصافحہ کافی نہیں ۔ رنجشوں کے خاتمے کیلئے کئی نشستیں درکار ہیں‘ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نے ایوان کے اندر اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش کی۔ یہ اقدام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن اس پیشکش کا خیر مقدم کرتی اور حکمران جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے دن اور جگہ کا تعین ہوتا مگر اپوزیشن لیڈر نے مذاکرات کی پیشکش کو بانی پی ٹی آئی اورپارٹی کارکنان کی رہائی اور مینڈیٹ کی واپسی سے مشروط کر دیا۔ پی ٹی آئی آٹھ فروری کے عام انتخابات میں 180سیٹیں حاصل کرنے کی دعویدار ہے‘ مطلب یہ کہ جب تک انہیں قیادت کی رہائی اور مطلوبہ مینڈیٹ نہیں ملے گا‘ مذاکرات کی بات آگے نہیں بڑھے گی۔
مذاکرات میں دو باتوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے‘ اوّل یہ کہ پہل کرنے والے کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘ دوم یہ کہ مذاکرات جس فریق کیلئے زیادہ ضروری ہوں عموماً وہی لچک دکھاتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مذاکرات کی پیشکش کر کے پہل کی ہے‘ جب دوسرا فریق اس پیشکش کو قبول کرے گا اور باقاعدہ طور پر مذاکرات کا آغاز ہو گا تو بات آگے بڑھے گی۔ وزیراعظم کی پیشکش کو مثبت پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ فریقین تناؤ سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ سیاسی استحکام کے لیے بات چیت پر تیار ہیں۔ مذاکرات اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ فریقین نے بات چیت کے ذریعے مسائل کو سلجھانے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ مخاصمت کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہے‘ تاہم یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مذاکرات کا آغاز صرف مسئلے کے حل کی ایک ابتدائی سی کوشش ہے۔ یہ یقینی نہیں ہے کہ اس سے ہمیشہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ مذاکرات کا عمل پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہے جس میں فریقین کے مفادات اکثر متصادم ہوتے ہیں۔ اعتماد کی کمی‘ غلط فہمیاں اور بے لچک رویہ مذاکرات کو ناکام بناتا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے کسی اُلجھے ہوئے رشتے کو سلجھانا۔ اس میں وقت‘ صبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ مذاکرات کا آغاز مسئلے کے حل کیلئے امید کی ایک کرن ضرور ہے لیکن یہ یقینی حل کی ضمانت نہیں۔ کامیابی کے لیے فریقین کو مذاکرات کے عمل میں سنجیدگی اور کھلے ذہن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ صرف اسی صورت مذاکرات ایک مثالی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
مذاکرات دو طرفہ عمل ہے جس میں فریقین اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اگر صرف ایک فریق لچک دکھاتا ہے اور دوسرا اپنے مؤقف پر اڑا رہتا ہے تو ایسی صورت میں مذاکرات کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ لچکدار فریق کو مسلسل قربانیاں دینا پڑتی ہیں جبکہ دوسرا فریق ان فائدوں کو اپنا حق سمجھنے لگتا ہے‘ جیسے رسہ کشی میں اگر رسی کو صرف ایک طرف سے ہی کھینچا جائے تو رسی ٹوٹ سکتی ہے‘ جبکہ دونوں طرف سے لچک اور مناسب زور کے ساتھ کھینچنے سے ہی رسی کو مطلوبہ سمت میں لے جایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک فریق لچک دکھاتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی ساکھ کھو دیتا ہے بلکہ دوسرے فریق کو غلط فہمی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ دوسرا فریق لچک کو کمزوری سمجھنے لگتا ہے اور اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جس سے اعتماد کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ اعتماد کی کمی مذاکرات کو مزید اُلجھا سکتی ہے اور کسی بھی نتیجے پر پہنچنا مشکل بنا سکتی ہے۔ وزیراعظم نے مذاکرات کی پیشکش کرکے بال پی ٹی آئی کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ اخلاقی طور پر حکومتی جماعت کا پلہ بھاری ہو گیا ہے ‘انہوں نے یہ پیشکش اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں کی ہو گی۔ چند روز پہلے بلاول بھٹو زرداری نے بھی کہا تھا کہ میثاقِ معیشت کے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں اور یہ میثاق اپوزیشن کو ساتھ ملائے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ نیشنل اکنامک چارٹر کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کی رائے ضروری ہے۔ حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتیں میثاقِ معیشت پر زور دے رہی ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ معاشی محاذ پر چیلنجز کم نہیں ہوئے ہیں۔ مذاکرات اگرچہ پی ٹی آئی کیلئے بہت اہم ہیں مگر وہ حکومت کی معاشی مجبوری کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے‘ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر پی ٹی آئی اپنی شرائط پر بات کرنا چاہتی ہے۔
پی ٹی آئی کی سخت شرائط اس کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ اپنی سیاسی ساکھ کے ساتھ ہی آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ وہ الیکشن میں دھاندلی اور اپنے مینڈیٹ کی واپسی کا مطالبہ کرتی ہے مگر اس مقصد کیلئے کوئی عملی کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ کیا پی ٹی آئی ایک بار پھر وہی غلطی کرنے جا رہی ہے جو پہلے کئی بار کر چکی ہے؟ اس سے پہلے پی ٹی آئی قیادت نے مذاکرات کے کئی مواقع ضائع کئے‘اپنی منتخب صوبائی حکومتیں ختم کرنے کا فیصلہ بھی انہی غلطیوں کا نتیجہ تھا۔ پی ٹی آئی کے پاس موقع ہے کہ وہ قومی سیاست میں بھرپور کردار ادا کرے لیکن اس بار پھر اس کی غیر منطقی شرائط آڑے آ رہی ہیں۔ جب مذاکرات کی بات چل نکلے تو لچک دکھانا ہی عقل مندی ہوتی ہے کیونکہ مذاکرات ایک نازک عمل ہے‘ جہاں فریقین ایک دوسرے سے اُلجھتے ہیں اور آخر کار کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بات چیت اپنے اختتام کی طرف گامزن ہوتی ہے اور حل کا امکان نظر آنے لگتا ہے تو اچانک کسی ایک فریق کی طرف سے غیرضروری اور غیرمنطقی شرائط سامنے رکھ دی جاتی ہیں۔ یہ شرائط ایسی گرج کی صورت میں آتی ہیں جو سیاست کے آسمان پر سمجھوتے کے بادلوں کو ختم کر کے رکھ دیتی ہیں۔تصور کریں کہ جب وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ آئیں بیٹھ کر معاملات طے کریں تو کیا اس میں وہ تمام امور زیر بحث نہیں آئیں گے جو تحریک انصاف چاہتی ہے؟
دفعتاً خیال آتا ہے کہ تحریک انصاف کا اصل دشمن کون ہے؟ وہ لوگ کہ جن کے مشوروں کے باعث خان صاحب جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے یا وہ لوگ جو نہیں چاہتے کہ بانی پی ٹی آئی کی قومی سیاست میں واپسی ہو؟ کیا پی ٹی آئی قیادت نے سوچا ہے کہ اگر مذاکرات کا یہ موقع ضائع کر دیا تو ان کی جماعت کہاں کھڑی ہو گی؟ کیا پی ٹی آئی اگلے پانچ برس تک انتظار کر سکتی ہے؟