حج2024ء‘ سعودی حکومت کے احسن اقدامات

لبیک اللھم لبیک۔ حاضر ہوں‘ اے اللہ! میں حاضر ہوں۔تیرا کوئی شریک نہیں ‘تیرے ہی لیے تعریفیں ہیں‘نعمتیں اور بادشاہت تیری ہے‘ تیرا کوئی شریک نہیں...حاضر ہوں میرے اللہ! میں حاضر ہوں۔اللہ رب العالمین کا خاص فضل ہوا کہ اُس نے اس سال حج کے موقع پر مجھے اپنے در پر بلایا۔ جب ہم عرفات میں دعا کرتے ہیں‘ مزدلفہ میں قیام اور منیٰ کے اندر ہوتے ہیں‘ خانہ کعبہ اور روضہ رسولﷺ پر حاضری دیتے ہیں‘ یہ وہ لمحات ہیں جنہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ یعنی اللہ کا بندہ اپنے آقا و مولیٰ کے دربار میں آ کر اس کی محبت و رضا پانے کیلئے خودفراموشی و سرمستی کا مجسم بن جاتا ہے۔ حج مقدس ترین عبادت اور اللہ کی بار گاہ میں حاضری کا موقع بھی ہے۔ مکہ علامتِ محورِ ایماں۔ مدینہ قرارِ قلبِ مومن ہے۔ دونوں حرم کی شان سے اسلامی شوکت کا اظہار ہوتا ہے۔ دونوں سے محبت‘ ایمان کی تازگی کی دلیل ہے۔ دونوں سے عقیدت‘ عقیدے کی تابندگی کا باعث ہے۔ ان کی جاہ و عظمت اور شان و شوکت سے صہیونیت خوف زدہ ہے۔ اللہ کی بار گاہ میں پاکستان کی سلامتی‘ کشمیریوں و فلسطینیوں سمیت تمام مظلوم مسلمانوں کیلئے خصوصی دعائیں کیں۔ اللہ ان دعاؤں کوقبول فرمائے‘ آمین!
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس وقت حجاج کرام کیلئے جو بہترین سہولیات دستیاب ہیں‘ ماضی میں کبھی ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعود نے حرمین شریفین کی تزئین و توسیع کا جو مقدس کام شروع کیا تھا‘ وہ ان کے بعد آنے والے سعودی حکمرانوں نے جاری رکھا۔ یہاں تک کہ مکہ اور مدینہ کے تمام راستے انتہائی آرام دہ بن گئے اور حجاج کرام کیلئے مناسکِ حج ادا کرنا نہایت آسان ہو گیا۔ ہر برس حجاج کی بڑھتی ہوئی تعداد دراصل سعودی حکومت کی حجاج کرام کیلئے بہترین انتظامات اور شاندار سہولتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رواں برس بھی سعودی حکومت کے حج انتظامات قابلِ تحسین و قابلِ تعریف رہے۔ خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی ہدایات کی روشنی میں تمام امور انجام دیے گئے اور عازمینِ حج کی سکیورٹی اور سلامتی کو یقینی بنایا گیا۔ سعودی حکومت کی خصوصی دعوت پر فلسطین میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے دو ہزار لواحقین بھی عازمینِ حج میں شامل تھے۔ خطبۂ حج 20زبانوں میں بیک وقت مختلف ڈیجیٹل چینلز اور پلیٹ فارمز سے نشر ہوا۔ اس برس پہلی بار حجاج کی خدمات کیلئے سمارٹ روبوٹ سروس کا آغاز ہوا۔ اس سال 18لاکھ سے زیادہ افراد نے فریضۂ حج ادا کیا۔ درحقیقت سعودی حکومت اور حج سے متعلقہ تمام ادارے حجاج کرام کی خدمت اور ان کو سہولیات کی فراہمی کیلئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہیں۔ اس کے باوجود بعض حلقوں کی طرف سے اس سال دورانِ حج حجاج کرام کی شہادتوں پر پروپیگنڈا کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا۔ واضح رہے کہ اس بار حج شدید گرمی میں ہوا اور میں جمرات میں شدید گرمی اور ہجوم کی وجہ سے ہونے والی شہادتوں کا عینی شاہد ہوں۔ فوت شدگان میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد زیادہ ہے۔
حج مالی کیساتھ ساتھ بدنی مشقت والی عبادت ہے اس لیے سعودی حکومت حجاج کرام کو دورانِ حج تمام ضروری سہولتوں کی فراہمی یقینی بناتی ہے۔ حج کی ادائیگی کے دوران ہونے والی شہادتوں میں زیادہ تعداد اُن افراد کی تھی جو چوری چھپے وزٹ ویزا پر حج کر رہے تھے اس لیے حجاج کرام کیلئے سعودی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سہولتوں سے محروم تھے۔ اس مقصد کیلئے حج کے دنوں میں سعودی حکومت نے مکہ اور مدینہ میں وزٹرز کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ ساڑھے تین لاکھ غیرقانونی حاجیوں کی گرفتاری کے باوجود ان کی کثیر تعداد وہاں موجود تھی۔ اس میں بڑی تعداد مصری باشندوں کی تھی‘ یہی وجہ ہے کہ مصری حکومت نے اپنے ملک میں حج و عمرہ کے انتظامات کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی شروع کیا ہے کہ بکنگ کے وقت وعدے کچھ اور ہوتے ہیں اور وہاں جاکر سہولیات نہ ہونے کے برابر ملتی ہیں۔ منیٰ کے اندر ان غیر قانونی حاجیوں کے ٹھہرنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا تو اس کی ذمہ دار سعودی حکومت نہیں ہے۔ یہ سب ٹریول ایجنٹوں کا کیا دھرا ہوتا ہے جو پیسے لے کر حاجیوں کا وزٹ ویزا لگوا دیتے ہیں اور پھر سارا ملبہ سعودی حکومت پر ڈال دیتے ہیں۔دوسری جانب ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت حجاج کرام کی اموات کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ اللہ شہید ہونے والے حجاج کرام کی شہادتیں قبول کرے اور اپنے فضل سے انہیں حج کا مکمل ثواب عطا کرے اور ان کے درجات بلند کرے‘ آمین!
منیٰ‘ عرفات اور مزدلفہ میں حجاج کو پانی میسر نہ ہونے کی خبروں میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ سعودی حکومت کے بہترین اقدامات کے علاوہ عام عرب شہریوں کی بالخصوص رمضان اور حج کے دنوں میں فیاضی‘ مہمان نوازی اور رحم دلی کے قصے مشہور ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اس بار بھی عام سعودی شہری اللہ کے مہمانوں کیلئے کہیں پھل لیے کھڑے تھے‘ کہیں پانی کی بوتلیں پیش کر رہے تھے۔ سعودی باشندوں نے پانی‘ جوس اور دودھ کے پورے پورے کنٹینر حجاج کرام کی خدمت میں کھڑے کیے ہوئے تھے۔ مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران حجاج کرام پر پانی کا سپرے کیا جا تا رہا اور جگہ جگہ سپاہی حجاج کرام کیلئے چھتریاں لیے کھڑے تھے۔ ہیلی کاپٹروں کی بڑی تعداد فضا سے اس پورے عمل کی نگرانی کر رہی تھی۔ اسی طرح کسی بھی ہنگامی صورت سے نمٹنے کیلئے جگہ جگہ ایمبولینس تیار کھڑی نظر آئیں۔ حج کے دوران ہر جگہ احسن اور شاندار انتظامات نظر آئے۔ خانہ کعبہ کے اندر طواف کیلئے چھ‘ چھ منازل بنا دی گئی ہیں۔ بزرگوں اور معذوروں کیلئے الیکٹرک گاڑیاں چلا رکھی ہیں تاکہ انہیں طواف و سعی کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ تاہم میں یہاں سعودی حکومت سے کچھ گزارشات بھی کرنا چاہوں گا۔ پہلی یہ کہ ٹیکسی کے نظام کوبہترکیا جائے۔ حج کے دنوں میں ٹیکسی والے عام دنوں سے کئی گنا زیادہ کرایہ وصول کرتے ہیں۔ ایک اور گزارش یہ بھی ہے کہ مہنگی موبائل سم کے بجائے انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ حجاج کرام اپنے گھروں میں اپنے پیاروں سے بآسانی رابطہ کر سکیں۔ تیسری یہ کہ روضہ رسولﷺ پر حاضری کیلئے سعودی حکومت نے Nusuk کے نام سے ایک آن لائن پلیٹ فارم متعارف کروایا ہے۔ اب روضہ رسولﷺ پر حاضری کے خواہشمند حضرات کو خود کو اس پلیٹ فارم پر رجسٹر کروانا پڑتا ہے۔ لیکن حجاج کرام کی ایک بڑی تعداد اس سے لاعلم تھی۔ زیادہ تر عمر رسیدہ افراد سمارٹ فون بھی استعمال نہیں کرتے‘ اس لیے گزارش ہے کہ سعودی حکومت کوئی متبادل اختیار کرے۔
حج علامتِ اتحاد ہے جس کے ذریعے اسلام کی اجتماعی زندگی کا پیغام دیا جاتا ہے۔ حج طبقاتی تفریق مٹا کر توحید و رسالت کی بنا پر اتحاد کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ اگر اُمت مسلمہ حج کے حقیقی مقاصد کو سمجھ جائے تو یہود و نصاریٰ کی مسلسل سازشوں کا دو ٹوک جواب دیا جا سکتا ہے۔ صہیونی سازشوں کی بخیہ گیری کی جا سکتی ہے۔ آج ہر جانب سے مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ قربانی کے مقاصد کی طرف مراجعت کی جائے اور اسوۂ ابراہیمی کو رہبر و رہنما بنایا جائے۔
جمرات میں پہلے دو دن کوئی بھگدڑ نہیں تھی۔ آسانی سے شیطان کو کنکریاں ماری گئیں لیکن تیسرے دن سامنے سے حجاج کرام کا ایک ریلا آیا‘ اتنی ہی تعداد میں دوسری جانب سے بھی حجاج کرام کا جمِ غفیر امڈ آیا جس سے ایک دم بھگدڑ مچ گئی۔ ایسی صورتحال میں کمزور و ناتواں بزرگ و خواتین کیلئے توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور وہ گر جاتے ہیں۔ جمرات میں درجہ حرارت بھی 51ڈگری تھا۔ گو کہ سعودی حکومت نے جگہ جگہ ڈیزرٹ کولر لگا رکھے تھے لیکن پھر بھی حبس بہت زیادہ تھا۔ اللہ تعالیٰ سعودی حکومت کی حجاج کرام کیلئے خدمات کو قبول فرمائے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں