اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو جمہوری ہے نہ اسلامی۔ اسے نہ اسلامی پاکستان میں برداشت کیا جا سکتا ہے‘ نہ جمہوری میں۔ جب پاکستان کے دستور سازوں نے اس دلکش نام کیساتھ اسلامی اور جمہوریہ کے لاحقے لگائے تھے تو دنیا بھر میں انہیں تجسّس اور شوق کی نگاہوں سے دیکھا جا رہا تھا۔ مسلمان ممالک میں جمہوریت نام کی شے مفقود تھی‘ بادشاہتیں تھیں یا آمریتیں۔ جمہوریت اور وہ بھی اسلامی‘ یہ ایک نئی طرز تھی جو ہم نے اختیار کی تھی اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کا عہد کیا تھا۔ آج بھی پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کے نقشے پر طلوع ہونیوالا پہلا اسلامی جمہوری ملک ہے۔ برسوں بعد اسکی پیروی ایران میں کی گئی اور وہاں کے رہنے والوں نے بادشاہت کا طوق اتار کر پھینک دیا۔ اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ ایران کا نام دیا اور اب بھی درجنوں مسلمان ممالک کے درمیان یہ دو ہی ملک ایسے ہیں جو ''اسلامی جمہوریہ‘‘ کہلاتے اور جمہوریت کی بنیاد پر اپنے معاشرے کا اسلامی ڈھانچہ استوار کرنے کے دعویدار ہیں۔ ایران نے امام خمینی کے انقلاب کے بعد زمامِ حکومت جمہور کو سونپ رکھی ہے‘ لیکن ''ولایت فقیہ‘‘ کا نگران ادارہ بھی قائم ہے جو عوامی ''جوش و جذبے‘‘ کو حد سے گزرنے نہیں دیتا۔ پاکستان کے آئین سازوں نے یہ فریضہ سپریم کورٹ کو سونپ رکھا ہے‘ مقننہ اور انتظامیہ کو آئینی حدود میں رکھنا اس کی ذمہ داری ہے (اس ذمہ داری میں صوبائی اعلیٰ عدالتیں بھی شریک ہیں)۔ ہمارا آئین ابتداء ہی میں یہ اعلان کر دیتا ہے کہ اہلِ پاکستان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلام کے اصولوں کے مطابق منظم کرنا ریاست پر لازم ہے‘ اس کے ساتھ ہی اقلیتوں کے انسانی اور مذہبی حقوق کی ضمانت بھی دی گئی ہے کہ ان کی جان‘ مال اور آبرو کا تحفظ بھی اسی طرح کیا جائے گا جس طرح اکثریتی آبادی کا۔ اس حوالے سے کسی شہری میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی جائے گی۔ ہر شہری کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل رہے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں تو ابھی تک نگران ادارے کا وقار اور اعتبار باقی ہے‘ صدر اور پارلیمنٹ کے انتخابات بھی مقررہ وقت پر ہو رہے ہیں‘ حال ہی میں سربراہِ مملکت کی ایک حادثے میں شہادت کے بعد وہاں انتخابی عمل دستور کے مطابق جاری ہے‘ جب یہ سطور آپ کی نظروں سے گزریں گی تو شاید نئے منتخب صدر کے نام کا اعلان بھی ہو چکا ہو۔ اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ اور اسکے حواریوں کی نظر میں کھٹکتا ہے‘ وہ اپنے عالمی کردار کو وسعت دینے میں لگا ہے‘ اور اپنے مزاحمتی روّیے کی وجہ سے عالمِ اسلام کے عوامی حلقوں میں تحسین کی نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے لیکن اس کی مشکلات کم نہیں ہیں۔ معاشی پابندیوں کی وجہ سے معیشت دباؤ میں ہے۔ تیل اور گیس کی دولت نے البتہ آسانیاں فراہم کر رکھی ہیں‘ معیشت زمین بوس نہیں ہو سکی‘ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا ہوا ہے‘ اور اپنے اہداف سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ چین اور روس کی اُبھرتی ہوئی طاقت کے ساتھ جڑ کر وہ اپنا راستہ کشادہ کرنے میں لگا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ آزادی کے ابتدائی برسوں میں اس نے اپنے آپ کو نہ صرف سنبھالا بلکہ ایک بڑی طاقت کے طور پر بھی اُبھرا۔ نئی ریاست کا ڈھانچہ استوار کرنے کے بعد اسے ترقی کے راستے پر ڈالا اور مرجع خلائق بن گیا۔ پاکستان نے جو خارجہ پالیسی اپنائی‘ اُس نے اسے جوہری طاقت بننے میں مدد دی اور عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن کر اس نے دنیا بھر کو ششدر کر دیا۔وہ پاکستان جو کبھی ترقی کا ماڈل قرار دیا جاتا تھا‘ ترقی پذیر ممالک جسے رشک کی نگاہوں سے دیکھتے اور جس کی منصوبہ بندی کی داد دیتے اور اس کی پیروی کو راہِ نجات سمجھتے تھے‘ آج اپنے مسائل میں اُلجھا ہوا ہے۔ اسکی معیشت قابو آ رہی ہے نہ سیاست۔ عدالت بھی اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہی... نتیجتاً کسمپرسی‘ بے چارگی اور مایوسی کے لشکر ہیں کہ حملے پر حملہ کر رہے ہیں‘ ذوقِ یقین چھین لینے کی کوشش میں لگے ہیں۔ رہنما کہلانے والوں کی طرف سے آئین کی دہائی دی جا رہی ہے لیکن اس پر عمل کرنے کے بجائے اپنی اپنی اَنا اور ضد کو آئین کا تقاضا قرار دے دیا گیا ہے۔ ایک طرف افغانستان ہے تو دوسری طرف ہندوستان۔ دہشتگرد سر اٹھا رہے ہیں‘ سرحد پار سے انہیں تھپکیاں دی جا رہی ہیں‘ معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے‘ محصولات کی ساری آمدنی قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو جاتی ہے‘ پورا کاروبارِ مملکت ادھار پر چلایا جا رہا ہے۔ پرانے قرضے واپس کرنے کیلئے ہی نہیں‘ تنفّس برقرار رکھنے کیلئے بھی نئے قرضوں کی ضرورت پڑ چکی ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈالر لینے کیلئے اس کی ڈکٹیشن کے مطابق بجٹ بنایا جا رہا ہے کہ کم ترین شرح سود پر ڈالر کے حصول کا یہ واحد ذریعہ ہے۔ اگر اس سے مراسم اچھے نہ رہیں تو مشکلات کئی گنا بڑھ جائیں اور قیمتیں ساتویں آسمان تک جا پہنچیں۔
پاکستان کے اپنے باشندے امریکہ سے ساز باز میں لگے ہیں۔ پاکستانی نژاد امریکیوں نے لابی کر کے کانگرس کی بھاری اکثریت سے وہ قرارداد منظور کرا دی ہے جس میں پاکستانی جمہوریت اور انتخابات پر سوالیہ نشانات اٹھائے گئے ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اسکے جواب میں کثرتِ رائے سے مذمتی قرارداد منظور کی ہے اور پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ اسکے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی نشستوں پر براجمان افراد نے امریکی قرارداد پر اظہارِ مسرت کیا ہے۔ سابق صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی تک اپنی خوشی کو چھپا نہیں پائے۔پاکستانی ریاست کے سارے اداروں اور سارے معتبر افراد کو یہ بات شاید یاد نہیں رہی کہ ایٹمی طاقتیں بیرونی حملوں سے تاراج نہیں ہوئیں‘ داخلی خلفشار ان کو لے ڈوبتا ہے۔ سوویت یونین اسکی زندہ مثال ہے۔ عمران خان ہوں یا اُنکے مخالفین‘ عدلیہ ہو یا مقننہ‘ انتظامیہ ہو یا دفاعی ادارے‘ سب اسی صورت محفوظ ہو سکتے ہیں کہ آئین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں‘ وہ سب لوگ جو پارلیمنٹ کے اندر موجود ہیں‘ انکی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ انکی حیثیت ریاستی ڈھانچے میں دل کی سی ہے۔ انہیں اپنی دھڑکنوں ہی کو بے ترتیبی سے نہیں بچانا‘ ہر آرگن کو خون فراہم کرنا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا احترام نہ سہی اعتراف ہی کر لیں۔ معانقہ نہ سہی مصافحہ ہی کر لیں تو پھر ہر شے کی سمت درست ہوتی چلی جائے گی۔ ؎نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ''ہندوستاں‘‘ والو؍تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
جناب محمود شام کے ''روبرو‘‘
جناب محمود شام پاکستان کے انتہائی معتبر‘ روشن دماغ اور تجربہ کار اخبار نویس ہیں۔ ہفت روزہ ''اخبار جہاں‘‘ میں مجھے ان کے زیر قیادت کام کرنے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ باکمال نثر نگار ہی نہیں‘ بے مثال شاعر بھی ہیں۔ ان کی نظموں اور ملی ترانوں نے اہلِ پاکستان کو گرمایا‘ اور اپنا فرض یاد دلایا ہے۔ 50برس کے دوران انہوں نے مختلف قومی شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور ان سے قومی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں سوالات پوچھے۔ ان کے یہ مکالمے حضرت علامہ عبدالستار عاصم نے القلم فائونڈیشن کے زیر اہتمام کتابی صورت میں ''روبرو‘‘ کے عنوان سے چھاپ دیے ہیں۔ پاکستانی سیاست اور صحافت کے ہر طالب علم کو اس مجموعے کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ پنجابی محاورے کے مطابق ''گرے ہوئے بیروں‘‘ کا کچھ نہیں بگڑا‘ یہ گرا ہوا دودھ نہیں ہے کہ جسے دوبارہ جمع نہ کیا جا سکے۔ محمود شام صاحب کی انگلی پکڑ لیجیے اور اپنے اپنے حصے کے بیر زمین سے اٹھانے میں لگ جائیے‘ روٹھی ہوئی بہار واپس آتی چلی جائے گی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)