تازہ اسپیشل فیچر

6 اگست….جب ہیروشیما پر قیامت ٹوٹی

لاہور: (ایم آر ملک) ہیروشیما اور ناگاساکی پر قیامت ڈھا کر کیا امریکہ کا مقصد پورا ہوگیا؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب آج تک انسانیت نام نہاد سپر پاور سے مانگتی ہے۔

ہیروشیما پر برسایا جانے والا بم 6 اگست 1945ء کو صبح آٹھ بج کر دس منٹ پر زمین کی سطح سے تقریباً 1800 فٹ بلندی پر پھٹا جس کی تابکاری کے اثرات 79 برس بعد بھی دیکھنے میں آ رہے، سوموار کی اس صبح انسانوں کے جسم جھلس گئے، ہڈیوں سے گوشت اتر گیا، لوگ آنکھوں کے ڈیلے ہاتھوں میں لئے گھوم رہے تھے، اپنی آنکھوں کے سامنے ملبے تلے دبے بیوی بچے یا ماں باپ کو آگ سے جلتا دیکھ رہے تھے۔

بم کی تباہی، آگ کی عفریت اور تیز آندھی نے جیسے جسم ہی نہیں روح بھی کھا لی تھی، امن کی خواہش خوف بن کر ان کی آنکھوں میں تیرتی ہے، ہیروشیما پر گرائے جانے والے پہلے بم کے carrierجہاز کا نام   اینولا گے‘‘ (Enola Gay)تھا، پائلٹ نے اپنی ماں کے نام پر یہ نام رکھا تھا، پیس میموریل میں آج بھی ایک جلا ہوا لنچ باکس اور ایک بچی کا جلا ہوا یونیفارم رکھا ہوا ہے، ستم ظریفی یہ کہ جس نے اپنے بچے کو وہ لنچ دیا تھا اور وہ یونیفارم پہنا کے سکول بھیجا تھا، وہ بھی ایک ماں تھی۔

جوہری فژن (nuclear fission) کی 1938ء میں دریافت جلد ہی سائنسی حلقوں میں پھیل گئی اور سبھی کو یہ سمجھ میں آ گیا کہ اس کو استعمال کر کے انتہائی تباہ کن ہتھیار یعنی ایٹم بم بنایا جا سکتا ہے، اس بات کا سبھی کو ڈر تھا کہ جرمنی کی وحشی نازی حکومت کہیں جلد ہی ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو کر پوری انسانیت کیلئے ایک بڑا خطرہ نہ پیدا کر دے۔

خدشہ تھا کہ ہٹلر اس بم کو استعمال کرنے میں بالکل بھی نہیں ہچکچائے گا اور جرمنی کے خلاف جنگ جیتنا ناممکن ہو جائے گا، اسی بیچ انگلستان میں دو سائنس دانوں فرسک اور روڈولف پیرلز کی تحقیقات سے بہت ہی اہم چیز یہ معلوم ہوئی کہ یورینیم کا ایٹم بم کیلئے کریٹیکل ماس صرف 10 کلو کے آس پاس ہی تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ بم بنانے کیلئے صرف 10،15 کلو ہی یورینم درکار ہوگا اور اس طرح کہ بم کو بآسانی ہوائی جہاز سے کہیں بھی لے جا کر گرایا جا سکتا ہے۔

برطانیہ اس وقت نیوکلیئر فزکس کی تحقیقات میں عالمی طور پر سب سے آگے تھا، ایٹم بم فوراً بنایا جائے اس سلسلے میں سرسک اور پیرلز نے چرچل کو ایک خط لکھا جس کے نتیجہ میں مونڈ کمیٹی بنائی اور بلا تاخیر کئے برطانوی ایٹم بم پروجیکٹ خفیہ طور پر شروع ہوا، اس کے ساتھ ہی روس اور جاپان میں اسی طرح کے بم بنانے کی تیاری شروع ہوئی، انگلستان کی حکومت نے امریکی حکومت کو اپنی تحقیقاتی معلومات کو شیئر کرنے کا وعدہ کیا تاکہ ایٹم بم جلد از جلد بنایا جا سکے۔

اس زمانہ میں یورینیم کے سب سے زیادہ ذخائر کینیڈا اور افریقہ کے کانگو میں تھے، لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یورینیم قدرتی طور پر یورینیم کے ذخیروں میں صرف 0.7 فی صد ہی   یورینیم 235‘‘ تھا، زیادہ تر   یورینیم 238‘‘ جو تھا وہ بم کیلئے بیکار تھا، اس لئے یورینیم کی کانوں سے نکلے سامان سے   یورینیم 235‘‘ کا حاصل کرنا مشکل تھا، اسی دوران   پی یو 239‘‘ کی دریافت ہوئی اور کچھ تجربہ گاہیں اس کوشش میں لگ گئیں کہ اس کا کم از کم اتنا ذخیرہ حاصل کیا جا سکے کہ اس سے ایک الگ طرح کا ایٹم بم بھی بنایا جاسکے۔

ستمبر 1944ء میں امریکا، انگلستان اور کینیڈا میں ایک معاہدہ (کیوبیک ایگریمنٹ)کے نام سے ایٹم بم بنانے اور تینوں کی مرضی سے ہی استعمال کرنے کیلئے ہوا، اس مشن کو جلدی پورا کرنے کی غرض سے انگلینڈ سے 5 بڑے سائنس دان امریکہ گئے، کچھ عرصے بعد 35 اور سائنس دان برطانیہ سے امریکہ اس کام میں ہاتھ بٹانے گئے، امریکہ اور برطانیہ نے یہ فیصلہ لیا کہ دنیا میں جہاں جہاں یورینیم کے ذخائر ہیں ان پر قبضہ کر کے سارے ذخیرہ کو حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ یورینیم کمی کی وجہ سے بم بنانے کا کام نہ رکے اور یہ اہم ذخیرہ کسی اور کے ہاتھ نہ لگے۔

کانوں سے نکلا یورینیم کا ذخیرہ حاصل ہونے کے بعد سب سے مشکل مرحلہ اس کی صفائی کا تھا، امریکہ کی کئی تجربہ گاہیں اس مشکل کام میں لگ گئیں کیونکہ اس کام میں وقت لگنے والا تھا، آخر کار جولائی 1945ء میں تقریباً 50 کلو یورینیم حاصل ہوپایا جس میں 85 فی صد   یورینیم 235‘‘ تھا جو کہ ایک ایٹم بم  لٹل بوائے‘ بنانے میں استعمال ہوا، پھر اسی بم کو ہیرو شیما پر استعمال کیا گیا۔

  ٹرینیٹی‘‘ کے نام سے اس بم کا تجربہ 16 جولائی 1945ء کو الاموگوردو پر صبح ساڑھے پانچ کیا گیا، اس چھوٹے بم کی قوت 20 کلو ٹن کے برابر تھی جس سے تقریباً 250 فٹ تک ساری زمین پگھل گئی اور شاک لہریں 100 میل تک محسوس ہوئیں اور مشروم بادل ساڑھے سات میل اونچائی تک گئے، ایٹم بم جس جگہ پھٹا وہاں پر درجہ حرارت 6000 ڈگری سلسیس یعنی سورج کی سطح کے درجہ حرارت کے برابر تھی اور یہ تجربہ کامیاب ہوا۔

جاپان کے کوبورا، ہیروشیما اور ٹوکیو سمیت چار شہروں پر بم گرانے کا فیصلہ کیا گیا، ان شہروں کو اس لئے بھی چنا گیا کیونکہ ان شہروں پر عام بمباری نہیں کی گئی تھی تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ ایٹم بم سے کتنی تباہی ہوتی ہے، ٹوکیو کا نام اس فہرست سے اس کی تاریخی اور مذہبی خصوصیت کی وجہ سے نکال کر ناگا ساکی کا نام جوڑا گیا۔

16 اگست 1945ء کو امریکی جہاز ایٹم بم   لٹل بوائے‘‘ کو لے کر اڑا تاکہ ہیروشیما اور اگر موسم خراب ہو تو کوبورا یا ناگا ساکی پر بم گرائے، یہ چھوٹا بم جس میں تقریباً 13 کلو ٹن کے برابر تباہی کا سامان تھا اس بم نے 12 کلو میڑ اسکوائر کا علاقہ پوری طرح تباہ کر دیا، 70 سے 80 ہزار لوگ تو فوراً ہی مرگئے اور تقریباً 70 ہزار افراد بری طرح زخمی ہوئے۔

9 اگست کو بی 29 جہاز دوسرے بم   فیٹ مین‘‘ کو لے کر اڑا کہ کوبورا پر گرائے، لیکن موسم خراب اور بادلوں کی وجہ سے شہر کے تین چکر لگانے کے بعد اس ڈر سے کہ جہاز کا ایندھن ختم نہ ہو جائے، بم کو ناگا ساکی پر گرا دیا، اس 21 کلو ٹن بم کی تباہ کاری سے 40 ہزار لوگ فوراً ہی مرے اور 60 ہزار لوگ بری طرح زخمی ہوئے، اگلے تین اور بم 19 اگست تک تیار ہونا تھے، 15 اگست کو اسٹالن نے جاپان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ اس کے فوراً بعد جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے۔

ایم آر ملک سینئر صحافی اور لکھاری ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔