تازہ اسپیشل فیچر

جنگ عظیم اول: منصوبہ نمبر 17

لاہور: (امین کنجاہی) یورپ میں تناؤ کی فضاء کے پیدا ہوتے ہی متحارب ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف جنگ کیلئے منصوبہ بندی شروع کر دی تھی، ان منصوبہ بندیوں میں سب سے اہم منصوبہ جرمنی کے چیف آف سٹاف ایلفر ڈوان شِلیفن کا تھا جو 1905ء میں موصوف نے اپنی ریٹائرمنٹ پر مرتب کیا تھا۔

دوسری طرف فرانس اور دیگر اتحادیوں نے مصنوبہ بندی کر رکھی تھی مگر ان منصوبوں میں وہ پختگی اور کاسلیت نہیں تھی جو جرمن شیلفین پلان میں تھی، بیلجئم اپنے غیر جانبدارانہ موقف پر سختی سے کار بند تھا، تاہم برطانیہ اور فرانس کے مابین 1811ء سے قریبی تعلقات تھے اور یہ طے پا چکا تھا کہ جرمنی سے مقابلے کیلئے برطانیہ اپنی مہماتی فوج کو براعظم میں فرانس کے بائیں طرف حربی کارروائیوں کیلئے بھیجے گا۔

1870-71ء کی جنگ میں پروشیاء سے شکست کھانے اور اپنے صوبے الساس اور لیورین کھو جانے کے بعد فرانس میں ان علاقوں کے حصول کیلئے انتہائی شدید جذبات تھے، ان جذبات کے زیر اثر فرانس کے اعلیٰ فوجی حکام منصوبہ جات بناتے اور ان کا بار بار جائزہ لیتے رہتے تھے۔

1911ء میں   منصوبہ نمبر16‘‘ الساس اور لورین کے صوبوں میں جارحیت کیلئے بنایا گیا تھا، جنرل آگسٹن ایڈ یورڈ   منصوبہ نمبر16‘‘ کو فرانس کی سالمیت کیلئے نقصان دہ سمجھتا تھا، اسے یقین تھا کہ جرمن الساس اور لورین کے دشوار گزار راستوں کی بجائے بیلجئم کے راستے پر فرانس پر حملہ کریں گے، اس نے تجویز دی کہ جرمنی کے بیلجئم کے راستے متوقع حملے سے بچنے کیلئے بیلجئم کی سرحد کے ساتھ دفاع کو مضبوط کیا جائے اور افواج کو از سر نو منظم کر کے جرمنی کے حملہ آور دستوں پر جارحانہ حملے کرتے ہوئے انہیں بیلجئم سے نکال باہر کیا جائے۔

اس منصوبے پر عمل درآمد سے ایک تو فرانس کی پوری فوج کی از سر نو ترتیب اور صف آرائی کرنی پڑتی، دوسرے اس منصوبے کے دوران فرانس بیلجئم کی غیر جانبدارانہ حیثیت کو خراب کرنے کا مرتکب ہوتا لہٰذا جنرل آگسٹن کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اس کی جگہ جنرل جوزف جوفر کو چیف آف سٹاف کے عہدے پر متمکن کر دیا گیا جو بعد میں مارشل لاء کے عہدے پر بھی فائز رہا۔

جنرل جوزف نے ایک غیر واضح اور نا مکمل منصوبہ دیا جس میں ان جگہوں کی نشاندہی کی گئی تھی جہاں دشمن کے حملے متوقع تھے اور جہاں سے دشمن پر حملے کئے جانے مقصود تھے، اس منصوبے کو   منصوبہ نمبر17‘‘ کا نام دیا گیا۔

اس منصوبے کی اساس پہ خیال تھا کہ جرمن افواج مقبوضہ علاقوں الساس اور لورین کی فرانس سے ملحقہ سرحد سے حملہ آور ہوں گی، تاہم اس منصوبے میں جرمن افواج کے بیلجئم کے ذریعے حملے کو بھی متوقع سمجھتے ہوئے کس قدر انتظامات کئے گئے تھے۔

اس منصوبے کے تحت فرانس کی پہلی، دوسری، تیسری اور پانچویں آرمی دائیں سے بائیں الساس اور لورین کے علاقوں سے جرمن افواج کے حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار تھیں۔

جرمنی کے بیلجئم کے راستے حملے کی صورت میں محفوظ چوتھی آرمی کو بائیں طرف حرکت کرنا تھی اور پانچویں آرمی کی جگہ لینا تھی جبکہ پانچویں آرمی بیلجئم کے راستے داخل ہونے والی جرمن افواج کو روکنے کیلئے مزید بائیں جانب حرکت کرنا تھی، بصورت دیگر چوتھی آرمی کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ تیسری آرمی کے دائیں طرف سے الساس اور لورین کے علاقوں میں موجود جرمن افواج پر حملہ کرے۔

اس منصوبے میں باقاعدہ طور پر برطانوی مہماتی فوج کیلئے کوئی اشارہ نہیں تھا تاہم پانچویں آرمی کے بائیں طرف بہت بڑی سرحدی لائن اسی لئے فرانسیسی افواج سے خالی رکھی گئی تھیں کہ وہاں برطانیہ کی مہماتی فوج صف آراء ہو کر جرمن افواج کا مقابلہ کرے گی۔

اس صورت میں برطانیہ اور فرانس کی افواج دو بڑے حملے کرنے کا منصوبہ رکھتی تھیں، تاہم کس وقت اور کتنی افواج کے ساتھ اور دیگر ضروری جزئیات وغیرہ منصوبہ میں بیان نہیں کی گئی تھیں، اسی لئے یہ منصوبہ ادھورا اور غیر جامع تھا، اس منصوبے کے مطابق فرانس کی افواج نے بالکل وہی کیا جس کی جرمنی شیلفن پلان میں توقع کی گئی تھی۔

امین کنجاہی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ملک کے مؤقر جریدوں میں ان کے مضامین شائع ہوچکے ہیں۔