تازہ اسپیشل فیچر

توبہ اور اِستِغفَار کے فضائل و ثمرات

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) معروف معانی میں توبہ گناہوں کی آلودگی سے احکامِ الٰہیہ کی اطاعت و فرمانبردای کی طرف ظاہری اور باطنی طور پر رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا‘‘ (الفرقان: 71)، توبہ کا ایک معنی نادم و پشیمان ہونا بھی ہے حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے مروی حدیث مبارکہ میں ارشاد نبویﷺ ہے: ’’(گناہ پر) پشیمان ہونا توبہ ہے‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبہ)۔

توبہ کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں ’’اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کر لو پھر اپنا آپ، حتیٰ کہ سب کچھ اللہ کے سپرد کر دو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے علاوہ اور کوئی چیز داخل ہی نہ ہو سکے اور ہر اس چیز کو اپنے قلب میں جاگزیں کر لو جس کا تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے اور ہر اس شے کا داخلہ بند کر دو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور جن خواہشات کو تم نے اپنے قلب سے نکال پھینکا ہے ان کو دوبارہ کبھی داخل نہ ہونے دو‘‘ (عبد القادر جیلانی، فتوح الغیب: 15)۔

مذکورہ بالا تعریف کی روشنی میں توبہ کا مفہوم یہ ہے کہ شریعت میں جو کچھ مذموم ہے اسے چھوڑ کر ہدایت کے راستے پر گامزن ہوتے ہوئے پچھلے تمام گناہوں پر نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگ لے کہ وہ بقیہ زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق بسر کرے گا اور گناہوں کی زندگی سے کنارہ کش ہو کر اللہ کی رحمت و مغفرت کی طرف متوجہ ہو جائے گا اس عہد کرنے کا نام توبہ ہے۔

توبہ اور اِستِغفَار میں فرق
ندامت قلب کے ساتھ ہمیشہ کیلئے گناہ سے رک جانا توبہ ہے جبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا ’’استغفار‘‘ ہے، ’’توبہ‘‘ اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا راستہ ’’استغفار‘‘ ہے، اللہ تعالیٰ نے سورہ ھود میں توبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے: ’’سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو، بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہے‘‘(ھود:61)، گویا گناہوں سے باز آنا، آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا اور صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونا ’’توبہ‘‘ ہے جبکہ اللہ سے معافی طلب کرنا، گناہوں کی بخشش مانگنا اور بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کر کے اپنے مولا کو منانا استغفار ہے۔

توبہ و استغفار کی اَہمیت و فضیلت
ہمہ وقت گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کی صفت ہے، ہمیشہ گناہوں میں غرق رہنا شیطان کی خصلت ہے، گناہوں پر نادم ہو کر توبہ کرنا اور معصیت کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ ہدایت میں قدم رکھنا اولادِ آدم کا خاصہ ہے، شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ اس کی فطرت میں موجود اعلیٰ تر بلند مقامات اور جاہ و منصب تک جانے کی خواہش کی آڑ میں اسے مرتبہ انسانیت سے گرانے کی کوشش کرتا ہے، اسی لئے اس نے مومن بندوں کو قیامت تک گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ابلیس نے کہا : اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقیناً ان کیلئے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوشنما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا‘‘ (الحجر: 39)

حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی حدیث قدسی میں شیطان مردود کی اس قسم کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’شیطان نے (بارگاہِ الٰہی میں) کہا: (اے اللہ!) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی رہیں گی گمراہ کرتا رہوں گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا‘‘ (احمد بن حنبل: 11257)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص مجلس میں بیٹھا اور اس نے لغو باتیں کیں، وہ اٹھنے سے پہلے کہے ’’اے اللہ میں تعریف کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں‘‘ تو ان لغو باتوں سے اس کی مغفرت ہو جائے گی‘‘ (صحیح ترمذی : 3433)۔

قبیلہ جُہینہ کی عورت کی قبولیتِ توبہ
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس قدر مہربان اور رحم فرمانے والا ہے، اس کا اندازہ حدیث مبارکہ میں درج اس واقعہ سے ہوتا ہے، حضرت عمران بن حسینؓ روایت کرتے ہیں ’’جہینہ قبیلہ کی ایک عورت نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس حال میں کہ وہ زنا سے حاملہ تھی، اس نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں حد کے جرم کی مرتکب ہو چکی ہوں، آپﷺ مجھ پر (حد) قائم کریں تو اللہ کے نبیﷺ نے اس کے ولی کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ اسے اچھی طرح رکھنا، جب بچہ پیدا ہو جائے تو اسے میرے پاس لے آنا، پس اس نے ایسا ہی کیا، آپ ﷺ نے اس عورت کے بارے میں حکم دیا کہ اسے سنگسار کر دیا جائے۔

پھر آپ ﷺ نے اس کا جنازہ پڑھایا تو حضرت عمرؓ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ﷺ اس کا جنازہ پڑھاتے ہیں حالانکہ اس نے زنا کیا تھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیشک! اس نے ایسی توبہ کی ہے، اگر مدینہ کے ستر آدمیوں کے درمیان تقسیم کی جائے تو انہیں کافی ہو جائے اور کیا تم نے اس سے افضل توبہ پائی ہے؟ کہ اس نے اپنے آپ کو اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے پیش کر دیا‘‘ (صحیح مسلم، رقم : 1696)

توّابین کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھولنے کا حکم
توبہ و استغفار کی فضیلت اس بات سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تائب کیلئے جنت کے آٹھ دروازے کھولنے کا حکم فرماتا ہے، حضرت عمر بن خطابؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’جس نے اچھی طرح وضو کیا، پھر کلمہ شہادت پڑھا اور یہ دعا مانگی ’’اے اللہ! مجھے خوب توبہ کرنے والوں اور خوب پاک ہونے والوں میں سے بنا دے تو اس کیلئے جنت کے آٹھ دروازے کھول دئیے جائیں گے، وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے‘‘ (جامع الترمذی : 55)

تائبین کے مال اور اولاد میں برکت
توبہ و استغفار کرنے والوں پر اللہ رب العزت کی رحمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں، اس بات کا اظہار کرتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’پھر میں نے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو، بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے، وہ تم پر بڑی زوردار بارش بھیجے گا اور تمہاری مدد اَموال اور اولاد کے ذریعے فرمائے گا اور تمہارے لئے باغات اُگائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کر دے گا‘‘ (سورۃ النوح :10-12)

توبہ کرنے والوں کی نیکیوں میں اضافہ
توبہ کرنے سے نہ صرف انسان کی برائیاں مٹ جاتی ہیں بلکہ تائب کے نامہ اعمال میں اللہ رب العزت اتنی ہی نیکیوں کا اضافہ فرما دیتا ہے، سورۃ الفرقان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘ (الفرقان : 70)

توبہ سے غافل رہنے والوں کیلئے وعید
جو لوگ اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ تعالیٰ سے بخشش و مغفرت کا سوال نہیں کرتے اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے توبہ نہیں کرتے ان کیلئے قرآن و سنت میں سخت وعید آئی ہے، قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘ (الحجرات: 11)

توبہ کی اقسام
توبہ کی دو اقسام ہیں، ظاہری توبہ اور باطنی توبہ۔’’ظاہری توبہ ‘‘یہ ہے کہ انسان قولاً و فعلاً اپنے تمام اعضائے ظاہری ( آنکھ، ناک، کان، ہاتھ اور پاؤں وغیرہ) کو گناہوں اور برائیوں سے ہٹا کر اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگا دے اور خود کو نیکیوں کی طرف راغب کرتا رہے۔ نیز شریعتِ مصطفیٰﷺ کے مخالف افعال سے تائب ہو کر شرعی احکامات کے مطابق عمل پیرا ہو۔

’’باطنی توبہ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دل کو گناہوں کی غلاظتوں اور آلائشوں سے پاک کر کے شریعت کے موافق اعمالِ صالحہ کا پابندی کرے، جب انسان کا ظاہر حکمِ الٰہی کے موافق ہو جائے اور قلب و باطن بھی اللہ رب العزت کی اطاعت میں ڈھل جائے اور برائی نیکی سے بدل جائے تب اس کو کامل توبہ نصیب ہوگی۔

توبہ و اِستغفار اور انبیاء کرام و صلحاء عظام کے معمولات
علاوہ ازیں انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، بڑے بڑے اولیاء اللہ اور اکابرین کے بھی یہ معمولات تھے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہتے تھے، ان میں سے چند جلیل القدر ہستیوں کے معمولات درج ذیل ہیں :

امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒکی گریہ و زاری: امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ کی گریہ و زاری اور معافی مانگنے کا بھی عجب معمول تھا، تبع تابعین کے دور کے ایک بزرگ بیان کرتے ہیں کہ میں کوفہ کی جامع مسجد میں اس ارادے سے رات بسر کرنے آیا کہ دیکھوں امام ابوحنیفہؒ کی شب بیداری کیسی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم! میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نمازِ عشاء پڑھنے کے بعد امام ابو حنیفہ ؒگھر گئے، دن کو جو عالمانہ لباس پہنا ہوا تھا تبدیل کر کے اللہ کے حضور پیش ہونے کیلئے غلامانہ لباس پہن آئے اور مسجد کے کونے میں کھڑے ہوگئے، ساری رات اپنی داڑھی کھینچتے رہے اور عرض کرتے رہے مولا! ابو حنیفہ تیرا مجرم ہے، اسے معاف کر دے۔

حضرت امام اعظمؒ کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ وہ رو رو کر بے ہوش ہو جاتے، جب ہوش آتا تو عرض کرتے مولا! اگر قیامت کے دن ابو حنیفہؒ بخشا گیا تو بڑے تعجب کی بات ہوگی۔

حضرت امام عبد اللہ بن مبارکؒ کی گریہ و زاری: حضرت امام عبد اللہ بن مبارکؒ کی سفید داڑھی تھی وہ اس کو پکڑ کر اللہ کے حضور روتے ہوئے عرض کرتے تھے ’’اے مولا! عبد اللہ بن مبارک کے بڑھاپے پر رحم فرما‘‘ وہ ہر وقت معافی مانگتے رہتے تھے۔

ایک روایت منقول ہے کہ حضرت امام حسن بصریؒ اور بڑے بڑے اکابر اولیاء اللہ جب درج ذیل آیت کریمہ پڑھتے: ’’بیشک نیکوکار جنت نعمت میں ہوں گے اور بیشک بدکار دوزخِ (سوزاں) میں ہوں گے‘‘ (الانفطار : 13، 14) تو حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ رو رو کر بے ہوش ہوگئے اور جب ہوش میں آئے تو کہا معلوم نہیں کہ ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوگا؟

یہ اللہ کے ان مقبول بندوں کی حالت ہے جن کی ساری زندگیاں بندگی اور اطاعت میں گزریں لیکن ادھر ہماری حالت یہ ہے کہ نہ بندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ خوف کا احساس ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم بہت ظالم، غافل اور گنہگار ہیں، ہماری زندگیوں کے شب و روز بغاوت، سرکشی، لالچ اور طلبِ دنیا جیسے شیطانی پھندوں میں الجھے ہوئے ہیں، ہم اپنے نفس کے اسیر ہیں، ان لوگوں کی بندگی اور خوفِ الٰہی کی یہی کیفیت انہیں حیات جاوداں عطا کر گئی۔

اہل اللہ کے ان واقعات سے سبق سیکھ کر ہمیں بھی ہر وقت اللہ سے معافی مانگتے رہنا چاہئے کیونکہ اسی سے نفس اور قلب کی اصلاح ہوتی ہے، ظاہر و با طن کے احوال درست ہوتے ہیں اور توبہ میں استقامت نصیب ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر لطف و کرم فرمائے اور ہمیں ہر لحظہ معافی مانگتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے!

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہل سنت پاکستان صوبہ پنجاب، خطیب جامعہ الطافیہ سلطان الذاکرین ہیں، 27 سال سے مختلف جرائد کیلئے لکھ رہے ہیں۔