تازہ اسپیشل فیچر

بھڑیں کھانے والوں کا گاؤں

لاہور: (خاور نیازی) دنیا کے بیشتر ممالک میں بھڑیں ایک زہریلا اور خطرناک کیڑا تصور ہوتی ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بھڑوں کو نہ صرف گھر گھر پالا جاتا ہے بلکہ انہیں بڑی رغبت سے کھایا بھی جاتا ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم آپ کو جاپان کے ایک منفرد گاؤں کی سیر کرائیں پہلے آپ کو بھڑوں کی زندگی بارے کچھ بنیادی معلومات بتائے دیتے ہیں۔

دنیا بھر میں بھڑوں کی تین ہزار سے زیادہ اقسام ہیں، اگرچہ برصغیر میں بھی بھڑوں کی متعدد اقسام ہیں لیکن سب سے زیادہ نمایاں اور زیادہ پائی جانے والی بھڑوں میں پیلے رنگ والی بھڑ اور دوسری کالے رنگ کی جو سائز میں اس سے بڑی ہوتی ہے عرف عام میں اسے بھونڈ( Hornest) کہتے ہیں، یہ دونوں اقسام پاکستان میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں، اس کے علاوہ بھی ان کی لاتعداد اقسام ہیں لیکن ان کے رنگ جدا جدا ہوتے ہیں۔

ماہرین نے پاکستان میں پائی جانے والی بھڑوں کو دو گروپوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ایک کو انہوں نے سوشل یا سماجی بھڑوں کا نام دے رکھا ہے جبکہ دوسری قسم کو تنہائی پسند بھڑوں کے نام کی شناخت دے رکھی ہے، سوشل بھڑیں آپس میں مل کر چھتے بنا کر گروہ کی شکل میں رہتی ہیں، یہ بھڑیں پیلے اور کالے رنگ پر مشتمل ہوتی ہیں، یہ اپنے چھتوں میں اپنی خوراک اکٹھا کر کے اپنے بچوں کو پالنے میں مگن رہتی ہیں، اگر انہیں تنگ نہ کیا جائے تو یہ عام طور پر حملہ آور نہیں ہوتیں لیکن ذرہ سا بھی خطرہ محسوس کرنے پر یہ اپنے مخالف پر حملہ آور ہو کر ڈنگ مارنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔

دوسری قسم تنہائی پسند بھڑوں پر مشتمل ہوتی ہے، یہ اپنے چھتوں میں صرف اپنے بچوں کے ساتھ تنہا رہتی ہیں، چنانچہ ایک چھتے میں صرف ایک مادہ بھڑ کا ہی راج ہوتا ہے جو اپنے بچوں کو جوان کرنے تک اسی چھتے میں رہتی ہیں، یہ قسم ڈنگ مارنے سے گریز کرتی ہے، اس کی ساخت عام بھڑوں کے مقابلے میں لمبی اور پتلی ہوتی ہے اور عام طور پر اڑتے ہوئے تنہا نظر آتی ہے۔

عام طور پر بھڑوں کی لمبائی ایک سے دو انچ کے درمیان ہوتی ہے جبکہ سب سے چھوٹی بھڑ جسے ’’چیلسڈ‘‘ (Chalcid) کہا جاتا ہے، اس کی لمبائی بمشکل اعشاریہ 0055 انچ ہوتی ہے، چیلسڈ بھڑ کو دنیا کے سب سے چھوٹے کیڑے کا اعزاز بھی حاصل ہے، بھڑوں کی یہ دونوں اقسام گوشت خور ہیں، یہ کیڑے مکوڑوں کا شکار کر کے انہیں اپنے چھتوں میں لے جا کر خود بھی کھاتی ہیں اور اپنے بچوں کو بھی کھلاتی ہیں، بھڑوں کی زیادہ سے زیادہ عمر ایک سال سے کچھ کم ہی ہوتی ہے جبکہ بعض انواع کی زندگی چند ماہ پر محیط ہوتی ہے۔

کشی ہارا: جاپان کا ایک منفرد گاؤں
جاپان میں صدیوں سے بھڑوں کو بطور خاص غذا استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ روایت جاپانی علاقے گیفو پری فیکچر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، بھڑوں کو بطور خوراک استعمال کرنا کب سے ہو رہا ہے، اس بارے جاپان کی نوناکارکو یونیورسٹی کے ہسٹری آف کلچر کے ایک پروفیسر کنیچی گزشتہ تیس سالوں سے جاپان کی قدیم روایات بالخصوص دم توڑتی روایات پر تحقیق کر رہے ہیں۔

پروفیسر کنیچی کا کہنا ہے کہ اگرچہ جاپان کے طول وارض میں بھڑوں کو کھانے کے واضح شواہد دستیاب ہیں، یہ بھی طے ہے کہ ایسا ایک عرصے سے ہو رہا ہے لیکن بدقسمتی سے سردست ان کے استعمال کے صحیح عرصے کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔

پروفیسر کنیچی کہتے ہیں اس روایت میں کوئی سچائی نظر نہیں آتی کہ لوگوں نے محض اپنی پروٹین کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھڑوں کو خوراک کا حصہ بنایا ہوگا، اس دلیل کے دفاع میں کنیچی کہتے ہیں کہ اگرچہ سو گرام بھڑوں میں یقیناً کافی پروٹین کی مقدار ہوتی ہوگی لیکن اصل مسئلہ اتنی مقدار میں بھڑوں کا وسیع پیمانے پر دستیاب ہونا ہے۔

پروفیسر موصوف کہتے ہیں کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ لوگوں نے ان حشرات کو تب تب کھایا ہوگا جب کبھی اتفاق سے انہیں معقول مقدار میں بھڑیں ملتی رہی ہوں گی، البتہ یہ کبھی ان کی مکمل خوراک نہیں ہوتی ہوگی بلکہ جب مل گیا اسے اضافی ڈش کے طور پر یا خوشی کے بعض تہواروں پر استعمال کیا جاتا رہا ہو گا۔

چونکہ بھڑوں کے شکار کا حصول ایک روایتی طریقہ کار کے گرد گھومتا ہے جو نئی نسل کے مزاج سے مطابقت نہ رکھنے کے سبب رفتہ رفتہ سکڑ کر بہت حد تک جاپان کے ایک ضلع اینا کے شہر ’’کشی ہارا‘‘ اور چند دوسرے شہروں تک محدود ہوگیا ہے، چنانچہ یہی چیز یہاں کے قدیم شہر کشی ہارا کو جاپان کے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔

یہاں کے باسی گزشتہ 31 سالوں سے اپنے کلچر کو زندہ رکھنے کیلئے ہر سال ماہ نومبر کے پہلے اتوار کو ایک خوبصورت میلے کا انعقاد کرتے ہیں جس کی تیاریاں یہاں کے مقامی لوگ کئی ماہ پہلے سے شروع کر دیتے ہیں، مقامی لوگ اس میلے کو ’’کشی ہارا ہیبو مایٹسوری‘‘ کہتے ہیں۔

واضح رہے مقامی زبان میں کالی بھڑوں کو ’’ہیبو‘‘ کہا جاتا ہے، یہ ہیبو نسل کی بھڑیں غیر جارحانہ طبیعت کی مالک ہوتی ہیں جس کے سبب انہیں پکڑنا نسبتاً آسان ہوتا ہے، دراصل بنیادی طور پر یہی ہیبو بھڑیں ہی اس میلے کا مرکزی کردار ہوتی ہیں، ایک ماہ پہلے سے منعقد اس میلے کا اختتام ماہ نومبر کی پہلی اتوار کو ہوتا ہے اور اسی دن ہیبو کا سب سے بڑا اور بھاری چھتہ لانے والے کو ٹرافی دی جاتی ہے جو مقامی روایات کے مطابق جیتنے والے کیلئے بہت بڑا اعزاز تصور ہوتی ہے۔

بھڑوں کے شکار کیلئے یہاں کے باسی صدیوں سے رائج یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جس کے تحت یہ مچھلی کی کھال سے اترنے والے چمکدار چھلکوں کو ایک بڑے سفید کاغذ پر چپکا کر رکھ دیتے ہیں، جیسے ہی کسی بھڑ کی اس پر نظر پڑتی ہے وہ ان میں سے ایک سفید چمکتا چھلکا اٹھا کر چلتی بنتی ہے، موقع کی تاڑ میں شکاری اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں یہ ان بھڑوں کے چھتوں تک پہنچنے کی کارگر تکنیک ہے، یہاں انہیں حسب منشا چھتے مل جاتے ہیں، اس میلے نے دراصل یہاں کے باسیوں کو سکھا دیا ہے کہ بھڑوں کا شکار کس طرح کرتے ہیں۔

احوال ایک منفرد میلے کا
کشی ہارا ہیبو میلے کے میدان کے باہر علی الصبح شائقین کی ایک لمبی قطار لگ جاتی ہے جبکہ اندر ایک سٹیج پر چار بزرگ جو اس میلے کے مقابلوں کے جج ہیں، اپنی میز سجا کر بیٹھے ہوتے ہیں، ان کے گرد و نواح میں چاروں طرف لگے سٹالوں پر بھڑوں سے تیار شدہ ڈشیں جن میں زرد بھڑوں سے تلی ’’ہیبو جاکلیٹ‘‘، ’’ہیبو گوئی موچی‘‘ اور زرد اور کالی بھڑوں کی بہت ساری ڈشیں سجی رکھی ہوتی ہیں، جنہیں لوگ مزے لے لے کر کھا رہے ہوتے ہیں۔

دوسری طرف مقابلے کے شرکاء ہاتھوں میں بھڑوں کے چھتے لئے انتظامیہ کے حوالے کر رہے ہوتے ہیں، یہ سلسلہ شام تک جاری رہتا ہے، چنانچہ سورج ڈھلنے سے پہلے جج صاحبان ایک لمبے جائزے کے بعد سب سے بڑے اور سب سے وزنی چھتے کا انتخاب کر کے جیتنے والے امیدوار کو ٹرافی سے نوازتے ہیں، جس کے ساتھ یہ رنگا رنگ میلہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔

خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔