تازہ اسپیشل فیچر

آئینی ترمیم کی تیاریاں

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) آئینی ترمیم کیلئے دوسری بڑی کوشش آئندہ ہفتے ہوگی، حکومتی سطح پر اس کیلئے بھرپور تیاریاں کی گئی ہیں، پہلی کوشش جو وزیراعظم میاں شہباز شریف، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ محسن نقوی کی صورت میں حکومتی ٹیم کر رہی تھی، حکومت کو اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

اس کے بعد آئینی ترمیمی پیکیج کا معاملہ بلاول بھٹو زرداری کے سپرد کر دیا گیا جو عدالتی ریفارمز کیلئے فرنٹ فٹ پر نظر آ رہے ہیں، بلاول بھٹو نے آئینی ترمیمی پیکیج کیلئے بھرپور مہم شروع کر رکھی ہے جس میں وہ آئینی عدالت کے ہر صورت قیام پر زور دے رہے ہیں، بلاول کہہ رہے ہیں کہ آئینی عدالت کے قیام کا کسی مخصوص وقت سے تعلق نہیں بلکہ یہ 30 سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے اور اس عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا حصہ ہے۔

کوئٹہ میں بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب کو وفاقی آئینی عدالت کو قبول کرنا ہوگا، جس میں صوبوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہوگی، انہوں نے کہا کہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ آئینی عدالت کو قبول نہیں کریں گے، انہوں نے یہ بھی پیغام دے دیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا جسٹس منصور علی شاہ میں سے کوئی بھی آئینی عدالت کی صدارت کرتا ہے تو ان کی پارٹی کو کوئی مسئلہ نہیں۔

بنیادی طور پر بلاول وکلاء تنظیموں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں آئینی عدالت کا قیام وقت کا تقاضا ہے، اگرچہ حکومتی پلان کے مطابق آئندہ ہفتے میں ترمیم ناگزیر ہے کیونکہ اکتوبر کے وسط میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہونے جا رہا ہے جس میں رکن ممالک کے سربراہان نے شرکت کرنی ہے، یہ بڑا ایونٹ ایسے ماحول میں نہیں ہو سکتا کہ ملک میں سیاسی ٹینشن عروج پر ہو۔

شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے ڈیڑھ ہفتے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان میں 25 اکتوبر کو بڑی تبدیلی ہونے جا رہی ہے، ایسے میں جو بھی آئینی پیکیج آنا ہے ہر صورت 25 اکتوبر سے پہلے ہی آنا ہے اور اس کیلئے موزوں وقت آئندہ ہفتہ ہی ہے، آئینی ترمیمی پیکیج پارلیمان میں پیش کرنے کیلئے حکومتی ٹیم نے 7 اور 8 اکتوبر کو ترمیم پیش کرنے کا پلان بنایا ہے، یہی وجہ ہے کہ (ن) لیگ کے صدر میاں نواز شریف نے اپنا برطانیہ کا دورہ کچھ دیر کیلئے ملتوی کر دیا ہے۔

(ن) لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کیلئے وقت کی کوئی قید نہیں، بلکہ یہاں تک کہا کہ کسی بھی ترمیم کا جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس منصور علی شاہ سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف حکومت کیلئے آئینی ترمیم کیلئے وقت کی قید ہے جو اس نے مقررہ وقت سے قبل کرنی ہے بلکہ حکومت اپنے عزائم واضح کر چکی ہے کہ وہ یہ سب کچھ کیوں کرنے جا رہی ہے۔

بلاول بھٹو نے گزشتہ روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترمیم میں مشکلات ہوں گی، 25 اکتوبر سے قبل ترمیم ہوگئی تو 19 ویں ترمیم جیسی مشکلات پیش نہیں آئیں گی، بلاول کی گفتگو سے واضح ہے کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ نئے چیف جسٹس کے تقرر کے بعد ترامیم عدالت میں چیلنج ہونے کے بعد کالعدم ہو سکتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت ہر صورت 25 اکتوبر سے قبل اعلیٰ عدلیہ کا سٹرکچر تبدیل کرنے کا تہیہ کر چکی ہے۔

بہت سے قانونی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے اختیارات لے کر وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کرنے کے باوجود معاملہ اتنا آسان نہیں ہوگا، سپریم کورٹ آف پاکستان وفاقی آئینی عدالت بننے کے باوجود اس معاملے کو زیر سماعت لا سکتی ہے، اگر ایسا ہوا تو آنے والے ہفتوں میں آئینی بحران کھڑا ہو سکتا ہے، حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کا انتظام بھی نئے آئینی پیکیج میں کیا جائے گا جس میں چیف جسٹس کے تقرر کے طریقہ کار میں تبدیلی کا امکان ہے۔

آئینی ترامیم کے نئے مسودے میں اتحادیوں کی ڈیمانڈ پر بہت سی ترمیمی تجاویز کو نکال دیا گیا ہے جن میں ججزکی عمر میں تین سال کی توسیع، 63 اے اور چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین کی مدت ملازمت میں توسیع شامل تھی، آئینی ترمیم درحقیقت ایک ہی معاملے کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے کہ ایک وفاقی آئینی عدالت بنے گی جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے بہت سے اختیارات چھین لے گی۔

حکومت 25 اکتوبر 2024 ء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو اپنی بقا کیلئے خطرہ سمجھتی ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت نے تاحال سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا، حکومت کی ترجیح یہی ہے کہ آئینی ترمیم مولانا فضل الرحمن کی حمایت کے ساتھ ہو مگر اس نے پلان بی بھی تیار کر رکھا ہے اور اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس کی نظریں سپریم کورٹ آف پاکستان میں جاری 63 اے نظرثانی کیس کے فیصلے پر ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان مئی 2022ء میں قرار دے چکی ہے کہ پارٹی پالیسی سے انخراف کرنے والے نہ صرف نا اہل ہوں گے بلکہ ان کا ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا، پاکستان تحریک انصاف سمیت کئی فریق اس کیس کے فیصلے میں تاخیر چاہتے ہیں تاکہ نظرثانی منظور ہونے کی صورت میں آئینی ترمیم کیلئے اس کے اراکین فلور کراسنگ میں استعمال نہ ہو سکیں، مگر عدالت میں جاری کارروائی کو دیکھیں تو یہ معاملہ جلد ہی اختتام کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے، حکومتی پلان کا ٹائم فریم بھی اس کیس کے فیصلے سے جڑا ہوا ہے کیونکہ مولانا کی حمایت کے باوجود سینیٹ میں تکنیکی وجوہات کی بنا پر ایک نمبر کم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس آئینی ترمیم کے منصوبے کو یقینی بنانے کیلئے حکومت کو 63 اے سے متعلق فیصلے کا انتظار ہے، حکومتی پلان کے مطابق اگر تحریک انصاف کے منخرف اراکین کے خلاف ریفرنسز آ بھی گئے تو انہیں قانونی پیچیدگیوں کا شکار کر کے اراکین کی نا اہلی کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی جائے گی، مگر دیکھنا یہ ہے کہ آئینی ترامیم کر کے حکومت آئینی اور قانونی محاذ پر خود کو محفوظ کر کے ملک سے سیاسی عدم استحکام ختم کر پائے گی یا 25 اکتوبر کے بعد ملک میں ایک نئی صورتحال پیدا ہوگی۔