تازہ اسپیشل فیچر

10 اکتوبر: ذہنی صحت کا عالمی دن

لاہور: (حافظ بلال بشیر) انسان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، ان نعمتوں میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل انسانی جسم کے اعضاء اور نظام ہے، سر کے بالوں سے پاؤں کے ناخن تک کسی ایک عضو میں بھی خرابی پیدا ہو جائے تو پورا نظام بگڑ جاتا ہے اور انسان بے چین ہو جاتا ہے۔

انسانی جسم کے ہر عضو کی اہمیت اپنی جگہ اہم ہے لیکن انسان میں دماغ ایک ایسا پُرزہ ہے کہ اگر اسے جسم کا بادشاہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، اگر ذہنی صحت اچھی ہے تو انسان دنیا کے ہر مشکل کام کو آسان بنا کر راستہ تلاش کر لیتا ہے، ذہنی صحت کی وجہ سے ہی وہ غلبہ پا جاتا ہے اور فاتح کہلاتا ہے، ذہنی طور پر متحرک ہونے کی وجہ سے ہی انسان سمندر کی گہرائیوں سے لے کر آسمان کی اونچائی اور چاند تک پہنچ کر اپنا لوہا منوا رہا ہے۔

ذہنی صحت کی وجہ سے ہی آج دنیا میں ہر طرف جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے، جبکہ ذہنی صحت میں نقائص سامنے آ جائیں تو انسان ادھورا ہو جاتا ہے، مکمل مفلوج شخص کیلئے تو ہر وقت ایک انسان کی مدد درکار ہوتی ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی ایسی علامات سامنے آتی ہیں جو ذہنی طور پر انسان کی زندگی کو تلخ کر دیتی ہیں، یہ ذہنی عوارض کسی شخص کی سوچنے، سمجھنے، فیصلہ کرنے، جذبات قابو میں رکھنے اور تناؤ سے نمٹنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتے ہیں جبکہ بدترین حالات میں کوئی ذہنی بیماری، خودکُشی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

10 اکتوبر کو دنیا بَھر میں ’’ذہنی صحت کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اِس مرض سے متعلق آگاہی کے ساتھ، مثبت طرزِ فکر کا فروغ بھی ہے، اِس سال ’’ورلڈ فاؤنڈیشن آف مینٹل ہیلتھ‘‘ کی جانب سے’’مینٹل ہیلتھ ایٹ ورک‘‘ (Mental health at Work) کی تھیم منتخب کی گئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا بَھر میں تقریباً ایک بلین سے زائد افراد، جبکہ پاکستان میں گیارہ فیصد افراد مختلف اقسام کے ذہنی عوارض کا شکار ہیں اور ان میں بھی 75 فیصد افراد کو وہ سہولتیں میسّر نہیں، جن کی اُنہیں ضرورت ہے، اینگزائٹی اور ڈپریشن دو ایسے ذہنی عوارض ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ عام ہیں۔

ذہنی بیماریوں کی متعدّد وجوہ ہیں، جن میں موروثیت، دماغی نشوؤنما میں کمی، خاندانی پس منظر، سماجی و معاشی عدم استحکام، تعلیم کی کمی، عدم تحفّظ کا احساس، منشیات، گہرا ذہنی صدمہ، بچپن کے منفی اور تلخ تجربات، منفی سوچ، حد سے بڑھی افسردگی، محرومی و اضطراب، کسی عزیز کی جُدائی، بے روزگاری، مالی و معاشی مشکلات، تنہائی پسندی، حساسیت اور ماحولیاتی آلودگی اور کام کی جگہ پہ ذہنی دباؤ وغیرہ شامل ہیں۔

یہ وہ اہم عوامل ہیں جو مل کر یا کوئی ایک کسی بھی فرد کو کسی ذہنی عارضے میں مبتلا کر سکتے ہیں، جن میں سرِ فہرست ڈپریشن، اینگزائٹی، فوبیا، شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، مینیا، آبسیسیو کمپلسیو ڈس آرڈز اور پیرونایا وغیرہ ہیں، ہم اس سال کی تھیم کے مطابق کام کی جگہ پر ذہنی صحت پہ پڑھنے والے اثرات اور حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔

آج کے دور میں دماغی صحت اور کام کی جگہ کے درمیان ایک اہم تعلق ہے، عالمی آبادی کا 60 فیصد کام میں مصروف ہونے کے ساتھ، کام کی جگہ سے پیدا ہونیوالے دماغی صحت کے مسائل اور ان سے نمٹنا ایک چیلنج بن چکا ہے، کام کی جگہوں کا محفوظ اور صحتمند ماحول نہ صرف پیداواری صلاحیت کو فروغ دیتا ہے بلکہ ذہنی تندرستی کیلئے ایک حفاظتی عنصر کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔

اس کے برعکس، بغیر کسی وجہ کے اپنے ساتھ کام کرنے والے افراد مینجمنٹ یا مالکان کی طرف سے امتیازی سلوک، ایذا رسانی، خصوصاً خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، ہریسمنٹ یا نفرت آمیز رویوں کی وجہ سے ذہنی صحت اور زندگی کے مجموعی معیار کو بری طرح متاثر کر کے ڈپریشن میں مبتلا کرتا ہے۔

کام کی جگہ پر بد سلوکی اور ہراساں کرنے سے متعلق مسائل اور اس سے جنم لینے والے، ذہنی صحت کے عوارض کو حل کرنا بہت ضروری ہے، خاص طور پر ایسے خطوں میں جہاں کام کی جگہ کی حرکیات ثقافتی، سماجی اور اقتصادی عوامل سے متاثر ہو سکتی ہیں، اس حوالے سے عالمی اعدادوشمار اکٹھے کرنا بہت مشکل ہے البتہ ہم ریسرچ کر کے قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کر رہے ہیں۔

’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کام کی جگہ پر ہراساں کرنا دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ ہے، حالانکہ درست پھیلاؤ کی شرح علاقے اور مطالعہ کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے، ریسرچ کے دوران یہ معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں تقریباً 15سے 25 فیصد ملازمین اپنے کیریئر کے دوران کام کی جگہ پر کسی نہ کسی طرح امتیازی سلوک یا ایذا رسانی کا سامنا کرتے ہیں، ان متاثرین کو ڈپریشن، اضطراب، پوسٹ ٹرامیٹک، اسٹریس، ڈس آرڈر (PTSD) اور برن آؤٹ جیسے عوارض کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

امریکن جرنل آف پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس حوالے سے اس طرح درج ہے ’’کہ کام کی جگہ پر ہراسمنٹ، بدسلوکی کا تعلق ڈپریشن کے خطرے میں 63 فیصد اور اضطراب پیدا ہونے کے خطرے میں 50 فیصد اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔‘‘ برصغیر پاک و ہند خصوصاً ہندوستان میں کام کی جگہ پر ہراساں کرنا ایک عام معمول ہے، اور ایسے افعال کو میڈیا میں کم رپورٹ کیا جاتا ہے، لیکن مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 15 سے20 فیصد ملازمین نے کام کی جگہ پر کسی نہ کسی طرح کی ایذا رسانی کا سامنا کیا ہے۔

اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کے علاوہ ہندوستانی انسانی حقوق کے سروے نے بھی اس بات پر روشنی ڈالی کہ جنسی ہراسانی سمیت کام کی جگہ پر ہراساں کرنا ایک اہم مسئلہ اور چیلنج بن گیا ہے، حتیٰ کہ کام کی جگہ پر اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد خواتین کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ حال ہی میں ’’9 اگست کو 31 سالہ ٹرینی ڈاکٹر کو کولکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج اور ہسپتال میں ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا‘‘۔

ایسے بے شمار واقعات بھارتی معاشرے کی اخلاقی تنزلی کا ثبوت ہیں، تاہم، صرف ہراساں کرنے سے ہی ذہنی صحت پر اثر نہیں پڑتا بلکہ کام کی جگہوں پر کام کا بوجھ، وقت پر تنخواہ کی ادائیگی کا نہ ہونا، کمپنی مالکان یا انچارج کی طرف سے کام کی ڈیڈ لائن، ڈیڈ لائن میں کام مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین میں مایوسی، امتیازی سلوک، ملازمت کے دوران نوکری کے عدم تحفظ کا خوف، کمپنیوں کی طرف سے ملازمین کے ساتھ وعدہ خلافی دماغی صحت کے عوارض کا سبب بنتی ہے۔

برصغیر پاک و ہند کی نسبت بہت سے مغربی ممالک میں ملازمین کیلئے پالیسیاں، لیبر قوانین اور حکومتی سطح پر ایسے اقدامات موجود ہیں جن کا مقصد ان مسائل کو حل کرنا ہے، بشمول کام کی جگہ پر فلاح و بہبود کے پروگرام، دماغی صحت کے مسائل کے حل کیلئے تعاون، ملازمین کی مدد کے پروگرام (EAPs)، ایذا رسانی اور امتیازی سلوک کے خلاف قانونی کارروائی جیسے اقدامات قابل ذکر ہیں، مغربی ممالک کی ان کوششوں کے باوجود، وہاں بھی دماغی صحت ایک اہم تشویش بنی ہوئی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کام کی جگہ پر انسانیت کو ذہنی عوارض سے بچانے کیلئے عالمی ادارے مقامی حکومتوں، کمپنی مالکان سے مل کر دنیا بھر میں ایسی موثر پالیسی کے نفاذ کا اعلان کریں، جس سے دنیا بھر کے انسانوں کو فائدہ پہنچ سکے۔

عالمی سطح کے علاوہ مقامی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ موثر حکمت عملی کے ساتھ قانون سازی کرتے ہوئے تمام سرکاری و نجی اداروں کو پابند کریں کہ ملازمین سے کام لینے کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کو ہر حال میں مقدم رکھیں، ملازمین کیلئے بنائی گئی بہترین پالیسیوں پر وقت پر عمل درآمد کریں، اگر کسی ایسی پالیسی کی نشاندہی ہوتی ہے جس میں ملازمین کے ساتھ نا انصافی ہو سکتی ہے تو اسے فی الفور ختم کیا جائے۔

حافظ بلال بشیر نوجوان لکھاری ہیں، مختلف مو ضوعات پر اُن کے مضامین مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔