آئینی ترمیم، کھیل آخری مراحل میں
اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) کھیل آخری اوور میں داخل ہو چکا ہے، حکومت 18 سے 25 اکتوبر کے درمیان آئینی ترامیم کرنے کی ٹھان چکی ہے، جن میں سب سے بڑی ترمیم آئینی عدالت کا قیام ہے۔
آئینی عدالت کے قیام کی وجہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو حاصل بہت سے اختیارات ہیں جو حکومت 25 اکتوبر کے بعد سپریم کورٹ کے پاس نہیں رکھنا چاہتی، وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول آئندہ چند ہفتوں میں آٹھ فروری کے انتخابات کا آڈٹ ہونے کا خدشہ ہے جس کے بعد معاملات انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں۔
حکومت آئینی ترمیم کے معاملے کو اپنی بقا کا مسئلہ قرار دے رہی ہے مگر جو کام اس سے قبل اگست کے آخر اور ستمبر کے وسط میں دو مرتبہ نہیں ہو سکا کیا اب ہو جائے گا؟ ستمبر میں حکومت یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہو چکی ہے مگر 15 ستمبر کو بھرپور کوشش کے باوجود حکومت کو اس آئینی ترمیم میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
اس کے بعد سے اب تک تین ہفتوں میں جہاں سیاسی جماعتوں میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی وہیں آئین کے آرٹیکل 63اے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے نے آئینی ترامیم کیلئے حکومت کی راہ آسان کردی جس میں مئی 2022ء کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے منحرف اراکین کا ووٹ شمار کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
حکومت ابھی اس خوشخبری کا جشن منا ہی رہی تھی کہ تحریک انصاف کے وہ اراکین غائب ہو گئے جنہوں نے آئینی ترامیم کیلئے حکومت کو گرین سگنل دے رکھا تھا، ان میں سے کچھ تو ایسے بھی تھے جنہوں نے الیکشن جیتنے کے بعد بیانِ حلفی کے ذریعے مبینہ طور پر حکومتی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر رکھی تھی مگر ان کے اچانک غائب ہوتے ہی ان جماعتوں نے اُن اراکین کے خلاف 63اے کے تحت ریفرنسز دائر کر دیے، ان اراکین میں عادل بازئی اور الیاس چودھری شامل ہیں۔
عادل بازئی کے خلاف (ن) لیگ جبکہ الیاس چودھری کے خلاف پاکستان مسلم لیگ (ق) نے ریفرنس دائر کیا ہے کہ یہ اراکین بجٹ سیشن کے دوران پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومتی بینچز کے بجائے اپوزیشن بینچز پر بیٹھے، سپیکر کو بھجوائے گئے ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63اے کے تحت کارروائی کی جائے۔
موجودہ صورتحال بتا رہی ہے کہ صرف منحرف اراکین پر انحصار کر کے اور مولانا فضل الرحمن کے بغیر یہ ترامیم کرنا ممکن نہیں ہے، اگرچہ آئینی عدالت کے معاملے پر مولانا فضل الرحمن حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہیں مگر انہیں اب بھی کچھ ترامیم پر اختلاف ہے، نہ صرف مولانا فضل الرحمن بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی مکمل اتفاقِ رائے نہ ہونے تک آئینی ترمیم میں جلد بازی نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
اگلے روز بلاول بھٹو زرداری نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس مجوزہ آئینی ترامیم پاس کروانے کیلئے ٹائم لائن کا مسئلہ نہیں ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ 25 اکتوبر تک آئینی ترامیم پاس کروا لی جائیں گی، بلاول بھٹو کے بقول ہماری کوشش ہے کہ مولانا سمیت تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے، پاکستان پیپلز پارٹی جے یو آئی (ف) کے ڈرافٹ کا انتظار کر رہی ہے، ان کا مجوزہ ڈرافٹ آئے گا تو بیٹھ کر دیکھیں گے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کی گفتگو سے بھی واضح ہوگیا کہ ابھی آئینی ترامیم کے معاملے پر سیاسی اتفاقِ رائے مکمل نہیں ہو سکا، بلاول نے انکشاف کیا کہ آئینی عدالتوں اور عدالتی اصلاحات کے معاملے پر مولانا فضل الرحمن مان گئے تھے مگر حکومت آئین کے آرٹیکل آٹھ اور 51 میں ترامیم لانا چاہتی تھی، اس پر پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) نے انکار کر دیا تھا، آئین کا آرٹیکل آٹھ کہتا ہے کہ بنیادی حقوق کے خلاف قوانین کالعدم ہوں گے جبکہ آرٹیکل 51 قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد اور مخصوص نشستوں سے متعلق ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت اب بھی بہت سی ایسی ترامیم اس پیکیج کا حصہ بنانا چاہتی ہے جن پر مولانا فضل الرحمن‘ حتیٰ کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی اعتراضات ہیں، اگر تو معاملہ صرف آئینی عدالت سمیت عدالتی اصلاحات کی حد تک رہا تو ترامیم کا معاملہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے فوری بعد منطقی انجام کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے، مگر جو ترامیم حکومت لانا چاہتی ہے اگر آئندہ چند روز میں ان پر اتفاقِ رائے پیدا نہ ہو سکا تو آئینی ترامیم کا معاملہ 25 اکتوبر کے بعد جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
آئینی ترامیم کے بغیر 25 اکتوبر کے بعد ملکی صورتحال میں یقینی طور پر بڑی ہلچل پیدا ہوگی، حکومت کو موجودہ آئین اور قانون کے تحت آئندہ چند روز میں جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے، شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے فوری بعد یہ نوٹیفکیشن جاری ہو سکتا ہے مگر وہ اپنا عہدہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد یعنی 26 اکتوبر کو سنبھالیں گے، اگر حکومت اپنے پلان کے مطابق عدالتی نظام تبدیل کرنے میں ناکام رہی تو اس کیلئے 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو سکتا ہے۔
حالیہ دنوں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کے بعد کیسز مقرر کرنے والی کمیٹی میں بڑی تبدیلی آئی، جسٹس منیب اختر کمیٹی سے باہر ہوگئے اور جسٹس منصور علی شاہ اقلیت میں چلے گئے، مگر نئے منظر نامے میں یہ تمام اختیارات نئے چیف جسٹس اور ان کی مرضی کے جج صاحبان کے پاس چلے جائیں گے، وہ بلاول بھٹو جو چند روز پہلے تک یہ کہتے تھے کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان بنیں اب کہہ رہے ہیں کہ انہیں جسٹس منصور علی شاہ پر اعتماد نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے دوسرے ججز کو کنٹرول کر سکیں گے۔
حکومت چاہے گی کہ آئینی ترامیم 25 اکتوبر سے پہلے ہوں، حکومت نے اپنے بیرونِ ملک موجود اراکین کو 15اکتوبر تک ہر صورت واپس پہنچنے کی ہدایت کر دی ہے، اس وقت 10 سے زائد اراکینِ سینیٹ اور قومی اسمبلی ملک سے باہر ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے حکومت کا ساتھ دیا تو آئینی ترامیم کیلئے حکومت کو تحریک انصاف کے منحرف اراکین پر زیادہ انحصار نہیں کرنا پڑے گا، مولانا کے عدم تعاون کی صورت میں آئینی ترامیم حکومت کیلئے ایک انتہائی مشکل کام ہوگا، اس کے لئے حکومت کو اپنے آئینی پیکیج سے کچھ تجاویز کا خاتمہ کرنا ہوگا۔