طالبان کو مزہبی قیادت ملنے لگی?

طالبان کو مزہبی قیادت ملنے لگی?

امریکہ طالبان مذاکراتی عمل میں ڈیڈ لاک کی صورتحال کی بنیاد صرف افغان انتظامیہ کو مذاکراتی عمل کا حصہ بنانا ہے یا کچھ اور عوامل اس کا باعث بنے ہیں۔

(سلمان غنی) افغانستان کے حوالے سے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد پاکستان میں موجود ہیں اور امکان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مفاہمتی عمل بحال ہوگا۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ڈیڈ لاک کیونکر پیدا ہوا ، طالبان کیوں افغان انتظامیہ کو مفاہمتی عمل میں شامل کرنے کو تیار نہیں۔ اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ بھی ناراض نہ ہو اور طالبان بھی اس سے خوش رہیں لیکن طالبان کسی بھی قیمت پر افغان انتظامیہ کو مفاہمتی اور مذاکراتی عمل میں شریک کرنے کو تیار نہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ میدان میں جیتی ہوئی جنگ کو مذاکرات کی میز پر ہار دیں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت ہی امن و استحکام کا باعث بن سکتی ہے اور اگر امریکہ افغان مسئلہ طے کرائے بغیر واپس جاتا ہے تو ایک مرتبہ پھر افغانستان جنگ و جدل سے دو چار ہوگا اور اس صورتحال کے منفی اثرات پاکستان پر آئیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک طرف مذاکراتی عمل کی کامیابی کا خواہاں ہے تو دوسری جانب کسی سیاسی حل کے بغیر امریکی افواج کے انخلا کے خلاف ہے ۔ لہٰذا بڑا سوال یہی ہے کہ پاکستان طالبان کو اس امر پر لا سکتا ہے کہ افغان انتظامیہ کو بھی اس عمل میں شامل کرے ۔ فی الحال اس کا امکان نظر نہیں آتا البتہ افغان طالبان کی حمایتی پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی لیڈر شپ خصوصاً مولانا فضل الرحمن ، سراج الحق، مولانا خاور الحق کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے ۔ طالبان کو مذاکراتی عمل سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر یہ پیغام چلا گیا ہے کہ افغانستان کی اصل طاقت طالبان ہیں اور اس مذاکراتی عمل کا اصل نقصان افغان انتظامیہ کو ہوا جن کی اہمیت اور رٹ میں کمی آئی جبکہ اسلام آباد کے کردار کو بھی دنیا نے سراہا ہے ۔ امریکہ اسلام آباد کی طرف دیکھ رہا ہے ۔ چین، روس، ایران افغان امن عمل میں اسلام آباد کی تائید کرتے نظر آ رہے ہیں۔ البتہ اس سارے عمل سے جس کو بڑی تکلیف ہے وہ بھارت ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر مفاہمتی عمل ناکام ہوتا ہے تو ایک مرتبہ پھر امریکہ اس کا ملبہ اسلام آباد پر ڈالے گا ۔ جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ طالبان میدان میں جیتی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار دیں گے ، ایسا ممکن نہیں یہ غیر حقیقی ہے ۔ طالبان نے ایک محفوظ افغانستان بنایا تھا اور ان کی شوریٰ نے اسامہ بن لادن کو تیسرے ملک کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی، لہٰذا امریکی حملہ بے بنیاد تھا۔ امریکی فوجی انخلا کے بعد طالبان کے سوا کوئی قوت افغانستان میں وجود نہیں رکھ سکتی لیکن طالبان کی سولو پرواز علاقائی فورسز بھی ہضم نہیں کر سکیں گی لہٰذا گیند طالبان کی کورٹ میں ہے کہ وہ حقیقت پسندانہ حل کی جانب آئیں اور ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں