شہبازشریف کے بجائے حسین نواز پیغام رسانی کا ذریعہ

شہبازشریف کے بجائے حسین نواز پیغام رسانی کا ذریعہ

نوازشریف جیل میں ایک ‘ملاقاتی ’ کے ذریعے مولانا فضل الرحمن سے رابطے میں تھے نوازشریف کو نئے مقدمے میں نیب کے حوالے کرنیکا مقصد رابطے ختم کرنا :کیپٹن صفدر احتجاجی تحریک کیلئے پوزیشن اتنی مضبوط نہیں ،پارٹی تقسیم، نوازشریف کو احساس ہے

لاہور ( مانیٹرنگ ڈیسک )سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کی حمایت کے فیصلے نے شریف فیملی اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ہونے والی کسی مبینہ خفیہ مفاہمت کے امکانات کی نفی کر دی ہے ۔ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق سیاسی منظر نامے پر ابھرتا ہوا بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔ اس سے پہلے شریف فیملی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی پر چلتے ہوئے ریلیف حاصل کرنے کے حامی رہے ہیں۔ وہ مولانا فضل الرحمن کے احتجاج میں شمولیت کے حامی نہیں تھے ۔ وہ ‘کمر درد’ کی وجہ سے گزشتہ روز نواز شریف سے طے شدہ ملاقات کے لیے جیل بھی نہیں گئے تھے ۔ نواز شریف نے اپنے بھائی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کی بجائے لندن میں مقیم اپنے بیٹے حسین نواز کے ذریعے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ پیغام رسانی کا سلسلہ جاری رکھا۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق شہباز شریف کے موقف کی ناکامی کی وجہ سے ملک کے ان طاقتور حلقوں کو بھی نقصان پہنچا ہے جو شہباز شریف کے ذریعے نواز شریف سے اپنی شرائط منوانے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے ۔ اب نواز شریف نے تحریری طور پر شہباز شریف کو ہدایات دی ہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے پارٹی کو متحرک کریں۔ اس سلسلے میں پارٹی کے سینئر رہنماؤں کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے ۔احتساب عدالت نے چودھری شوگر مل کیس میں نوازشریف کو 14 روز کے لیے جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں دے دیا ۔ نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر نے اس پر کہا کہ نواز شریف جیل میں ایک ‘ملاقاتی رابطے ’ کے ذریعے مولانا فضل الرحمن سے رابطے میں تھے ۔ ان کوایک نئے مقدمے میں نیب بھجوانے کا اصل مقصد یہی ہے کہ ان کا رابطہ مولانا فضل الرحمن سے منقطع کیا جا سکے ۔ میزبان " دنیا کامران خان کے ساتھ" کے مطابق پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک اچانک اور معنی خیز پیش رفت ہوئی ہے ،پانچ ماہ کے طویل عرصے کے بعد نواز شریف منظر عام پر آئے ۔وہ لاہور کی احتساب عدالت میں آئے اور انھوں نے مسلم لیگ ن کی پارٹی پالیسی کا منظر نامہ ہی بدل دیا،پارٹی کا بانی اور قائد ہونے کا حق جتایا اور مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور دھرنے سے مسلم لیگ ن کو جوڑ دیا،ایک بہت اہم فیصلہ کر لیا اور فیصلے کا اعلان بھی کردیا۔طویل عرصے کے بعد میڈیا کے ساتھ ان کا رابطہ ہوا ۔نواز شریف نے کہا کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو پوری طرح سپورٹ کریں گے ۔نوازشریف کا یہ بیان اس موقع پر سامنے آیا ہے جب ان کی پارٹی میں دو رخ نظر آتے ہیں ۔ایک واضح تقسیم دکھائی دیتی ہے ،شہباز شریف کو نواز شریف سے ملنا تھا۔بہت اہم فیصلہ سازی ہونا تھی لیکن وہ مل نہیں سکے ،شہباز شریف نے بتایا کہ ان کی کمر میں درد ہے مگر نواز شریف نے اس سلسلے میں بہت اہم بات کی اور کہا کہ انہوں نے شہباز شریف کو لکھ کر صورتحال بتا دی ،میزبان کے بقول دبائو اور تنائو کا ماحول تھامگرنواز شریف پر جوش نظر آرہے تھے ، انھوں نے اکبر الہ آبادی کے ایک شعر کا سہارا لیاجس کا مفہوم تھا کہ وہ عزت کی موت کو ترجیح دیں گے ،نواز شریف اب نیب کی حراست میں چلے گئے ہیں جہاں پر ان کی ملاقاتیں نہیں ہو پائیں گی اب وہ خطوط بھی نہ لکھ پائیں گے ، اس کا ان کو احساس تھا۔ میزبان کہتے ہیں کہ احتجاج کی تحریک کے حوالے سے پوزیشن اتنی مضبوط نہیں ۔پارٹی میں دو آرا موجود ہیں ،نواز شریف کو بھی اس کا احساس ہے نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے جیل میں نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔ ان کی ترجمانی کیپٹن (ر) صفدر نے کی ،انھوں نے بڑی اہم باتیں کیں جو شاید مسلم لیگ ن کے دوسرے رہنما نہیں کرتے ۔کیپٹن (ر) صفدر نے بتایا کہ نواز شریف کے مولانا فضل الرحمن اور حسین نواز کے نام خطوط ہیں ۔صفدر نے مولانا کے آزادی مارچ کو جہاد سے تشبیہ دی اور بتایا کہ آئندہ ان معاملات میں حسین نواز کا اہم کردار ہوگا۔میزبان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کہا ہے کہ انھوں نے شہباز شریف کو خط لکھا ہے لیکن شاید ان کو سو فیصد یقین نہیں تھا کہ ان کی بھرپور ترجمانی شہباز شریف کریں گے یا نہیں ۔اس لئے انھوں نے اپنے داماد کیپٹن (ر) صفدر اور لندن میں موجود اپنے صاحبزادے حسین نواز کو ذمہ داری دی ہے ، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما چودھری منظور احمد نے کہا کہ مسلم لیگ ن کا بڑا واضح موقف سامنے آگیا ہے انھوں نے کہا کہ جب بلاول بھٹو نے نواز شریف سے جیل میں ملاقات کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت پیپلز پارٹی میں دو آرا تھیں ایک رائے یہ تھی کہ وہ جائیں اور دوسری رائے تھی کہ نہ جائیں ۔مسلم لیگ کے لوگ اس ملاقات کو استعمال کرسکتے ہیں لیکن بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اس وقت ایک بڑی لڑائی لڑ رہا ہوں اگر نواز شریف اور ان کی بیٹی ساتھ کھڑے ہوں تو یہ لڑائی آسان ہو جائے گی۔ہمارے خدشات تھے لیکن بلاول نے کہا کہ کوئی ایشو نہیں ۔سیاست میں ایسے حالات آتے رہتے ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں