کورونا: معیشت کو 3 ہزار ارب کا نقصان، شرح نمو منفی 0.4 فیصد، ایک کروڑ 85 لاکھ افراد کی بیروزگاری کا خدشہ، 56 فیصد آبادی غیر محفوظ ہوسکتی ہے: اقتصادی سروے ، آج بجٹ میں نئے ٹیکس نہیں لگیں گے: مشیر خزانہ
اشیا ئے خور و نوش میں مہنگائی کی شرح 34.7فیصد رہی، زراعت میں شرح ترقی 2.67فیصد ، صنعت میں منفی 2.64، سٹیٹ بینک سے ایک ٹکا قر ض نہیں لیا، فوج کا بجٹ منجمد کرنے پر آرمی چیف کے مشکور پہلی مرتبہ حکومتی اخراجات آمدن سے کم، ماضی میں لئے قرضوں میں 5ہزار ارب واپس ، آئندہ سال 3ہزار ارب ادا کرینگے ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20ارب سے 3ارب ڈالر تک لے آئے :میڈیا بریفنگ
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی، اے پی پی، مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی حکومت نے اقتصادی سروے 20-2019 ء جاری کر دیا۔ وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے جمعرات کو اقتصادی ٹیم کے ہمراہ اقتصادی سروے جاری کیا، جس میں معیشت کے مختلف شعبوں کی کارکردگی اور حکومت کی طرف سے معاشی استحکام اور معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے اقتصادی سروے جاری کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال 20-2019 ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ منفی 0.4 فیصد ہے ، اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد ہے ، جس میں صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور جس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 فیصدہے اور خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے ۔ ٹرانسپورٹ منفی سات اعشاریہ ایک فیصد اور مینوفیکچرنگ کے شعبہ کی کارگردگی منفی بائیس اعشاریہ نو فیصد رہی، مالی خسارہ جی ڈی پی کا چار فیصد رہا۔ انہوں نے کہا کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت متاثر ہوئی اور پاکستان کو 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچا ہے ۔ مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا تو ایک کروڑ 85لاکھ افراد کی بے روزگاری کا خدشہ ہے ،جب کہ 56 فیصد آبادی غیر محفوظ ہو سکتی ہے ۔ گزشتہ مالی سال کے دوران مہنگائی اور قرضے بڑھے ، تاہم ماضی کے لیے گئے قرضوں میں 5 ہزار ارب واپس کیے ، آئندہ سال مزید 3 ہزار ارب ادا کریں گے ۔ اشیا ئے خور و نوش میں مہنگائی کی شرح 34.7 فیصد رہی،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20ارب سے 3ارب ڈالر تک لے آئے ، آج بجٹ میں کوئی نئے ٹیکس نہیں لگیں گے ،ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی اخراجات آمدن سے کم رہے ۔فوج کا بجٹ منجمد کرنے پر آرمی چیف کے مشکور ہیں۔ جمعرات کو قومی اقتصادی سروے کے اجرا کے موقع پر مشیرتجارت عبدالرزاق داؤد، وفاقی وزرا مخدوم خسرو بختیار، حماد اظہر، اسدعمر، معاون خصوصی ڈاکٹرثانیہ نشتر، چیئرپرسن ایف بی آر نوشین جاویدامجد اورسیکریٹری خزانہ نوید کامران بلوچ کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتصادی بحران ورثے میں ملا تھا، اقتدار سنبھالتے وقت برآمدات میں جمود تھا، زرمبادلہ کے ذخائر صرف 9ارب ڈالر رہ گئے تھے ، حکومت کے لیے معیشت کو چلانا مشکل ہو گیا تھا ، پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 30000 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ ان مشکل حالات میں حکومت نے مالیاتی نظم وضبط کو برقراررکھتے ہوئے مشکل فیصلے کیے ۔ حکومت نے برآمدات کے فروغ پرتوجہ دی، اس مقصد کے لیے برآمدی شعبہ کو مراعات دی گئیں۔ حسابات جاریہ کے خسارہ کو 20 ارب ڈالر سے کم کر کے رواں سال اسے 3 ارب ڈالر کی سطح پر لایا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا حکومت نے مالیاتی ڈسپلن کو قائم رکھتے ہوئے سخت انداز میں حکومتی اخراجات کو کم کیا اورملکی تاریخ میں پہلی بار پرائمری بیلنس مثبت ہو گیاہے ۔ حکومت نے سٹیٹ بینک سے قرضہ نہ لینے کی پالیسی اپنائی ۔ گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے سٹیٹ بینک سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا۔ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے کہا حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ٹیکس آمدنی میں 17 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، تاہم کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے محصولات اکٹھے کرنے میں مسائل پیدا ہوئے ، اگریہ وبا نہ پھیلتی اور اسی طرح معاملات چلتے تو ٹیکس آمدنی میں 27 فیصد اضافہ متوقع تھا ۔ انہوں نے کہا حکومت نے تجارت اورسرمایہ کاری کے فروغ کے لیے جامع انداز میں کام کیا۔ سابق قبائلی علاقہ جات کے لیے 152 ارب روپے مختص کیے ۔ نان ٹیکس آمدنی میں اضافے کے لیے جامع اقدامات کیے گئے اور گزشتہ سال اس ضمن میں 1100 ارب روپے کے بجائے 1600 ارب روپے اکٹھے کیے گئے ۔ وزیراعظم کے مشیرنے کہا کورونا وائرس کی وبا سے پوری دنیا متاثر ہوئی، و با کی وجہ سے عالمی طلب کم ہونے سے پاکستانی برآمدات میں کمی آئی، وبا سے جی ڈی پی میں تین سے ساڑھے تین فیصد کے نقصان کا اندازہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 4700 ارب روپے کے بجائے 3900 ارب روپے تک رہی، اس ماحول میں حکومت مزید بوجھ عوام پر نہیں ڈالنا چا ہتی بلکہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کاروبار اورلوگوں کوسہولیات فراہم کی جائیں تاکہ معیشت کا پہیہ دوبارہ چل سکے ۔ وزیراعظم کے مشیر نے کہا وبا کے معاشی اثرات کے ضمن میں ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو فی خاندان بارہ ہزار روپے کی نقد امداد دی جا رہی ہے ، ابھی تک ایک کروڑ خاندانوں کو پیسے دیئے جا چکے ہیں، یہ دنیا بھر میں نقد امداد کا سب سے بڑا پروگرام ہے ۔ انہوں نے کہا حکومت زرعی شعبے کی ترقی کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے ۔ گندم کی خریداری کے لیے 280 ارب روپے مختص کیے ، کسانوں کی فلاح کے لیے گندم خریداری کو یقینی بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت کمزور طبقے کو گھر بنانے میں سہولت کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ، اس سکیم کے تحت ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی۔ تعمیراتی شعبے کے لیے مکمل پیکیج دیا گیا،کم آمدنی والے لوگوں کو گھروں کی تعمیر کے لیے لینڈ بینک بنائے جائیں گے ۔عبدالحفیظ شیخ نے کہا مالی سال میں جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 88 فیصد رہی ۔ موجودہ حکومت نے جو قرضے لیے ہیں وہ زیادہ ترماضی کے قرضوں اورسود کی ادائیگی کے لیے لیے ہیں،تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت نے سال کے دوران 5 ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کیے ، آنے والے مالی سال میں مزید 3 ہزار ارب روپے واپس کریں گے ۔ انہوں نے کہا حکومت کی کوشش ہے اگلے بجٹ میں لوگوں کو مزید مراعات دی جائیں، یہ بھی کوشش کریں گے کہ کوئی نیاٹیکس عائد نہ ہو اور لوگوں کو اقتصادی مراعات دی جائیں، ہمیں اداروں کی کارکردگی کو بڑھانا ہو گا، ہم اپنے اخراجات کم کریں گے ، برآمدات بڑھائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بارآمدنی سے اخراجات کم رہے ہیں، یہ بہت مشکل کام تھا۔ انہوں نے کہا حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 127فیصد اضافہ ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ 2019 ء میں ساڑھے سات ہزار ارب روپے کے قرضے لیے گئے ، قرضے بڑھنے کی بنیادی وجہ شرح تبادلہ ہے ۔ حکومتی اخراجات کی وجہ سے قرضے نہیں بڑھے ۔ سروے کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران مجموعی طور پر سرکاری قرضہ 35207 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا، جس میں 2499 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جب کہ اس مدت کے دوران وفاقی حکومت نے اپنے خسارے کی مالی اعانت کے لیے جو قرض لیا وہ 2080 ارب روپے تھا۔دفاعی بجٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا فوج کا بجٹ منجمد کیا گیا، جس کے لیے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے مشکور ہیں۔اقتصادی جائزہ رپورٹ 20-2019 ء کے مطابق شرح نمو منفی 0.38 رہنے کی اُمید ہے ۔جائزہ رپورٹ کے مطابق صنعت اور خدمات کے شعبے میں منفی شرح نمو کی وجہ کورونا وائرس وبا کے باعث سماجی دوری کو کہا گیا ہے ۔ وزارت خزانہ کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2020 ء کے آغاز میں معیشت میں زبردست بہتری آئی، جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئی تھی۔ عالمی معیشت کا جائزہ پیش کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کورونا وبا لاک ڈاؤن کے باعث دنیا 1930 ء کی دہائی کے بدترین ‘‘گریٹ ڈپریشن’’ کی طرف جا رہی ہے ۔معاشی خسارے کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2019 ء کے مقابلے میں 2020 ء میں مالی خسارے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔ 2019 ء میں مالی خسارہ جی ڈی پی کا 5.1 فیصد تھا، جب کہ 2020 ء میں یہ خسارہ چار فیصد ہے ۔ اقتصادی جائزہ کے مطابق مالی سال 2020ئمیں جولائی تا اپریل کے عرصے میں تجارتی خسارے میں 29.5 فیصد کمی آئی، مذکورہ عرصے کے دوران تجارتی خسارہ 16.4 بلین امریکی ڈالر رہا جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 23.3 بلین امریکی ڈالر تھا۔ اقتصادی جائزے کے مطابق کوویڈ۔19 کی وبا سے قبل حکومتی معیشت استحکام کی جانب گامزن تھی، جس کے نتیجے میں جاری کھاتوں کے خسارے میں کمی، زرمبادلہ اور شرح تبادلہ مستحکم ہوا۔ حکومت کے اقتصادی اصلاحات کے پروگرام پر عمل درآمد کے نتیجے میں رواں مالی سال 2020ء میں جولائی تا اپریل کے دوران جاری کھاتوں کا خسارہ 70.8 فیصد کم ہو کر 3.3 ارب ڈالر ہو گیا، جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں جاری کھاتوں کا خسارہ 11.4 ارب ڈالر رہا تھا۔ جاری مالی سال کے ابتدائی 11 مہینوں میں ملک میں افراط زر (مہنگائی) کی شرح 10.9 فیصد رہی۔ قومی اقتصادی سروے 20-2019 ء کے مطابق گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں افراط زرکی اوسط شرح 6.7 فیصد رہی تھی۔ اس عرصہ میں شہری غذائی افراط زرکی شرح 13.6 فیصد ریکارڈکی گئی۔ خوراک کی افراط زرکی شرح 8.6 فیصد رہی ، دیہی غذائی افراط زرکی شرح 16 فیصد ریکارڈکی گئی۔ شہری اوردیہی بنیادی (کور) افراط زرکی شرح 7.6 اور 8.7 فیصد رہی۔ گزشتہ مالی سال کے دوران شہری اوردیہی بنیادی افراط زرکی شرح بالترتیب 7.2 اور6.8 فیصد ریکارڈکی گئی تھی۔مالی سال کے دوران تھوک قیمتوں کے اشاریہ میں 11.1 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیاہے ۔ قیمتوں کے حساس اشاریہ میں 14 فیصد کا اضافہ ہوا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 4.7 فیصد تھا۔رپورٹ میں کہا گیا جلدی خراب ہونے والی کھانے کی اشیا کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اس شعبے میں مہنگائی کی شرح 34.7 فیصد ریکارڈ کی گئی۔اقتصادی سروے رپورٹ میں کورونا کا خصوصی باب شامل کر لیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کی 56.6 فیصد آبادی سماجی، معاشی لحاظ سے غیرمحفوظ ہوسکتی ہے ، خواتین اور بچوں کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔سروے رپورٹ کے مطابق اگر محدود پیمانے پر لاک ڈاؤن کیا گیا تو 1.4 ملین(14 لاکھ) لوگوں کی ملازمتیں چلی جائیں گی۔ درمیانے درجے کے لاک ڈاؤن میں 12.3 ملین(ایک کروڑ 23 لاکھ ) اور مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں 18.53 ملین (ایک کروڑ 85 لاکھ 30 ہزار) لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ رپورٹ کے مطابق کوروناوائرس سے اوورسیز پاکستانیز کے مستقل بے روزگار ہونے کا بھی خدشہ ہے ، کوروناسے تعلیمی اداروں کے 4کروڑ20 لاکھ طلبا وطالبات براہ راست متاثر ہوئے ۔ سکولوں، کالجزکی بندش سے خواتین کے بے روزگارہونے کاخدشہ ہے ۔ ملک میں خواتین لیبر فورس کم ہو جائے گی۔اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق حاملہ خواتین بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوں گی، اس وقت ملک میں 47 لاکھ خواتین حاملہ ہیں۔ کورونا سے نئے پیداہونے والے بچوں پر بھی منفی اثرات پڑیں گے ۔ کوروناوائرس سے تولیدی صحت پراثرات مرتب ہوں گے ۔