16ہزار ملازمین کی برطرفی کا کیس : پارلیمنٹ عدالت کے کسی فیصلے کو ختم نہیں کرسکتی : سپریم کورٹ

16ہزار ملازمین کی برطرفی کا کیس : پارلیمنٹ عدالت کے کسی فیصلے کو ختم نہیں کرسکتی : سپریم کورٹ

چند لوگوں کیلئے بناقانون کالعدم کیا جاسکتا، جسٹس منصور،فیصلے کے اثرات ختم کئے جاسکتے ہیں :جسٹس بندیال ، جن کیلئے ایکٹ بنا انہیں قائم مقام حکومت نے برطرف کیا جنہیں اس کااختیار نہیں تھا:اعتزاز،وکلا سے گزارشات طلب

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر)سپریم کورٹ نے 16ہزار برطرف ملازمین کی اپیلوں پر سماعت کے دوران آبزرویشن دی کہ کوئی بھی قانون جو آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو تو عدالت جائزہ لے کر اسے کالعدم کرسکتی ہے ، پارلیمنٹ عدالت کے کسی فیصلے کو ختم نہیں کرسکتی، فیصلے کے اثرات ختم کرسکتی ہے ، جس کو عدالت نے مجرم ٹھہرایا پارلیمنٹ اسے بری نہیں کرسکتی۔ متاثرہ سرکاری ملازمین کے وکلا نے مقدمہ سے جڑے حقائق پر بات کی تو عدالت نے آبزرویشن دی کہ یہ معاملہ حقائق کا نہیں قانون کا ہے ، عدالت کو بتایا جائے جس فیصلے کے تحت ایکٹ آف پارلیمنٹ کالعدم کیا گیا اس فیصلے میں کیا سقم ہے ، ایکٹ 2010کالعدم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستوں پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ سوئی ناردرن گیس کمپنی کے متاثرہ ملازمین کے وکیل وسیم سجاد نے دلائل میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کالعدم کرنے پر بات کی تو جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ مخصوص ملازمین کیلئے مخصوص قانون کیسے بنا ؟ آئین مخصوص لوگوں کیلئے قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔ وسیم سجاد نے کہا ا ن کے موکل ملازمین کو 30اکتوبر 2009کو ایک آرڈیننس کے ذریعے بحال کیا گیا تھا، ملازمین کی بحالی کا ایکٹ بعد میں آیا،12سال ملازمت کے بعدبرطرفی درست نہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا اس وقت حقائق دینا غیر متعلقہ ہے ، ہمیں یہ بتائیں جس قانون کو کالعدم کیا اس فیصلے میں کونسی چیز غیر آئینی ہے ،سکول اساتذہ و دیگر ملازمین کے وکیل افتخار گیلانی نے سوال اٹھایا کیا عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی کا جائزہ لینے کی مجاز ہے ؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریما رکس دیئے کہ آئین کا آرٹیکل 25امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے ،اگر قانون چند لوگوں کیلئے ہو یا بنیادی حقوق سے متصادم ہو تو اسے کالعدم کیا جاسکتا ہے ، افتخار گیلانی نے کہاپارلیمنٹ کی دانش کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جب سپریم کورٹ نے پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کیے تو حکومت نے اگلے دن لوکل باڈیز کا قانون ختم کر دیا، جب یہ اقدام سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ مقننہ قانون بنانے اور ترمیم کرنے میں آزاد ہے ،آئی بی کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے فیصلے ریورس ہوجاتے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمنٹ عدالتی فیصلوں کے پیچھے کھڑے قانون کو تو ختم کر سکتی ہے لیکن فیصلے ختم نہیں کر سکتی۔ عدالت نے جس کو مجرم قراردیا پارلیمنٹ اس کی سزا غیر موثر کر سکتی ہے لیکن بری نہیں کرسکتی،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جو فیصلہ صادر ہوجائے اسے کھولا نہیں جاسکتا،صرف اثرات کو ختم کیا جاسکتا ہے ،جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ صرف 1993سے 1996کے بر طرف ملازمین کی بحالی کیلئے کیوں قانون بنایا گیا۔ عدالت نے مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے وکلا کو تحریری گزارشات جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں