الیکشن کمیشن کو دھمکانے کا مقدمہ:فواد چودھری گرفتار،2 روزہ ریمانڈ:پولیس نے لاہور سے گرفتار کرکے اسلام آباد منتقل کیا،جو بولتا ہوں وہ پارٹی پالیسی ہوتی ہے:سابق وفاقی وزیر

 الیکشن   کمیشن    کو   دھمکانے   کا   مقدمہ:فواد   چودھری   گرفتار،2   روزہ   ریمانڈ:پولیس   نے   لاہور   سے   گرفتار   کرکے   اسلام   آباد   منتقل   کیا،جو   بولتا   ہوں   وہ   پارٹی   پالیسی   ہوتی  ہے:سابق   وفاقی   وزیر

لاہور ، اسلام آباد( کورٹ رپورٹر ، اپنے نامہ نگار سے ،خبر نگار ، سیاسی رپورٹر سے ، کرائم رپورٹر )اسلام آباد پولیس پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری کو لاہور سے گرفتارکر کے ساتھ اسلام آباد لے گئی۔

جوڈیشل مجسٹریٹ اسلام آباد نویدخان کی عدالت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے تھانہ کوہسار میں درج مقدمہ میں فوادچودھری کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔سیکرٹری الیکشن کمیشن کی درخواست پر فواد پر اداروں کیخلاف شرانگیزی ،دھمکیوں پر مقدمہ درج کیا گیا ، اسلام آباد پولیس نے ڈیفنس تھانے کی پولیس کی مدد سے گرفتارکیا ، فواد چودھری کا کہنا ہے کہ میں جو بولتا ہوں وہ پارٹی پالیسی ہوتی ہے ۔ دوسری جانب فواد چودھری کے بھائی کو بھی سڑک بند کرنے پر گرفتار کر لیا گیا لیکن ان کی ضمانت منظور کر لی گئی۔ فود چودھری کو چہرے پر کپڑا ڈال کر ہتھکڑی لگا کر اسلام آباد کی عدالت میں پیش کیا گیا تو کارکنوں نے نعرے بازی کی اوررش کے باعث جج نے کہاکہ کمرہ عدالت میں جگہ بنے گی تو فواد چودھری کو لے آئیں گے ،جج نے کہاکہ رش ملزم کے لیے سکیو رٹی رسک ہوسکتا ہے ،ان حالات میں کیسے ملزم کو پیش کیا جاسکتا ہے ،بعد ازاں پولیس نے فواد کو عدالت میں پیش کردیا، اس موقع پر پولیس اور کارکنوں میں دھکم پیل بھی ہوئی، فواد نے کہاکہ پانچ منٹ کیلئے فیملی سے بات کرنی ہے اور پانچ منٹ وکلاء سے ، اسلام آباد پولیس سے کہیں کہ اس طرح نہ کریں،باہر 1500 پولیس والے ہیں، مجھے ہتھکڑی لگائی ہوئی،میں سپریم کورٹ کا وکیل ہوں،وکیل نے استدعا کی کہ فواد کی ہتھکڑی کھولنے کا حکم دیاجائے ، دوران سماعت تفتیشی افسر نے فواد کے آٹھ روزہ ریمانڈ کی استدعا کی،الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ فواد چودھری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی حالت اس وقت منشی کی ہے ،جس پر فواد نے کہاکہ تو الیکشن کمیشن کی حالت منشی کی ہوئی ہوئی ہے ،وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ تقریر سے عوام کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی گئی،عدالت کے سامنے مواد رکھ سکتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کو پرائیویٹ لوگوں کی جانب سے دھمکی آمیز خط لکھے جا رہے ہیں،میں وہ مواد عدالت کو چیمبر میں دکھا سکتا ہوں۔

پبلک میں نہیں،فواد چودھری کے خلاف کافی الیکٹرانک مواد موجود ہے ،میں الزامات پڑھ رہاتھا تو فواد چودھری انشاللہ ماشااللہ کہہ رہے تھے ،فواد چودھری نے جو تقریر میں کہا وہ انہوں نے مانا بھی ہے ،فواد چودھری کے بیان پر پولیس کو ابھی تفتیش کرنی ہے ،استدعا ہے کہ جسمانی ریمانڈ دیاجائے ،اس موقع پر فواد نے کہاکہ بغاوت کی دفعہ بھی مقدمہ میں لگادی گئی ہے ، مجھے بھگت سنکھ اور نیلسن منڈیلا کی صفت میں شامل کردیاگیا،میرے خلاف تو مقدمہ بنتاہی نہیں ہے ،ایسے تو جمہوریت ختم ہو جائے گی، کوئی تنقید نہیں کر پائے گا،میں تحریک انصاف کا ترجمان ہوں،جو میں بات کروں وہ میری پارٹی کی پالیسی ہوتی ہے ،ضروری نہیں کہ جو میں بات کروں وہ میرا ذاتی خیال ہو،میں دہشتگرد نہیں کہ مجھے سی ٹی ڈی میں رکھاگیا،فواد چودھری نے کیس سے ڈسچارج کرنے کی عدالت سے استدعا کردی، فواد کے وکیل علی بخاری نے کہاکہ تفتیشی افسر نے کیا برآمد کرناہے ؟، جسمانی ریمانڈ مخصوص تفتیش کے لیے لیاجاتاہے ،عدالت نے دیکھنا ہے کہ جسمانی ریمانڈ کا کیس بنتا بھی ہے یا نہیں، اس کیس میں کچھ برآمد نہیں کرنا،اس کیس میں قانون واضح ہے ،فواد چودھری کو لاہور سے گرفتار کرنے کا تسلیم کیاگیا،اگر مدعی مقدمہ کی بات مان لی جائے تو مقدمہ تولاہورمیں ہوناچاہیے تھا، قانون کے مطابق مقدمہ وہاں ہوتاہے جہاں جرم کیاجاتاہے ، ایسا نہیں کہ قتل لاہور میں تو مقدمہ کراچی میں کیاجا رہاہو، وکیل علی بخاری نے پراسیکیوشن کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کردی۔

پراسیکیوشن نے کہاکہ فواد کے موبائل اور لیپ ٹاپ سمیت دیگر ڈیوائسز برآمد کرنی ہیں،فواد کا فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ اور وائس میچ کروانا ہے ،فواد کے تیسرے وکیل قیصر امام نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ حیران ہوں کہ فواد چودھری جب اپنا بیان مان رہے تو کیوں وائس میچ ٹیسٹ کروانا؟،فواد چودھری کمرہ عدالت میں موجود ہیں، تلاشی پر اعتراض ہے ؟فواد نے کہاکہ تلاشی لینی ہے تو لے لیں،اس موقع پر پراسیکیوٹر نے کہاکہ وائس میچ اور فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ تفتیش میں ضروری ہے ، فواد چودھری کا موبائل قبضہ میں لینا بھی ضروری ہے ،فواد نے کہاکہ اگر دیگر لوگ بھی ملوث ہیں تو ان پر بھی پرچہ کریں نا،دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا،جبکہ فوادنے اپنے وکلاء، پارٹی رہنماؤں اور اپنے اہل خانہ سے ملاقات کی،بعد ازاں رات گئے عدالت نے فواد کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوا لے کرنے کاحکم سنادیا۔قبل ازیں فواد کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا تا ہم فواد چودھری کی بازیابی کے لیے دائر درخواست خارج کردی گئی ۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے فواد چودھری کی بازیابی کے لیے خلاف دائر درخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ انہیں گرفتار کیا گیا اور ریمانڈ کے لیے لاہور کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا گیا۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست گزار سے کہا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے ، اگر یہ مقدمہ پنجاب میں ہوتا تو ہم دیکھ سکتے تھے کہ یہ مقدمہ درج بھی ہو سکتا تھا یا نہیں۔

فوادچودھری کے وکیل نے کہا کہ گرفتاری غیر قانونی ہے لہٰذا عدالت اس گرفتاری کو کالعدم قرار دے ، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میرے سامنے آپ کا یہ کیس نہیں ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میں شام سات، آٹھ بجے تک تو عدالت میں بیٹھ سکتا ہوں لیکن لائن کراس نہیں کر سکتا۔لاہور ہائی کورٹ نے فواد کی بازیابی سے متعلق درخواست خارج کر دی۔اس سے قبل 4 مرتبہ سماعت میں وقفہ آیا، جب ابتدائی طور پر سماعت شروع ہوئی تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا تھا کہ فواد چودھری کدھر ہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ فواد پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں، اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد پیش ہوں۔شام 6 بجے سماعت شروع ہوئی تو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان نے بھی تصدیق کی کہ فواد چودھری پنجاب پولیس کے بجائے اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست پر سماعت کے بعد دوپہر ڈیڑھ بجے تک فواد کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔دوپہر 2 بجے سماعت کا آغاز ہوا تو فواد کے وکیل اظہر صدیق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب کے مطابق فواد کو اسلام آباد لے جایا گیا ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ میں جو حکم دیتا ہوں اس پر عمل درآمد کرواتا ہوں، اگر فواد اسلام آباد پہنچ بھی گئے ہیں تو انہیں واپس لائیں اور اس عدالت میں پیش کریں۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی حکم پر من و عن عملدرآمد ہو گا، مجھے تھوڑا وقت دے دیں۔

بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 30 منٹ کے لیے ملتوی کر دی تھی۔فواد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ فواد کدھر ہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ وہ پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے ہدایت دی کہ آئی جی پنجاب کو فوری بلائیں، جس پر لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کر لیا۔اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے سماعت شام 6 بجے تک ملتوی کر دی تھی ۔مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہو گئے ۔آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں رحیم یار خان میں تھا جہاں سگنلز کا بہت ایشو تھا، جب موبائل سگنل آئے تو فواد کو پیش کرنے سے متعلق عدالتی حکم ملا۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت میرا ٹریک ریکارڈ چیک کراسکتی ہے ، عدالت میں اپنے بیان میں آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں کسی عدالت کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا، فواد پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں بلکہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں۔اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب نے فواد کے خلاف درج مقدمے کی کاپی عدالت میں پیش کر دی۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس ایف آئی آر کی بنیاد پر اسلام آباد پولیس نے لاہور کے متعلقہ پولیس سٹیشن سے رابطہ کر کے گرفتاری کی، لاہور کی مقامی عدالت نے راہداری ریمانڈ پر فیصلہ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ فواد مغوی نہیں بلکہ ان کے وکلا نے ریمانڈ میں پیش ہو کر بحث کی ہے ۔جسٹس طارق سلیم نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس عدالت سے کیا چاہتے ہیں، آپ کی استدعا کیا ہے ۔وکیل نے جواب دیا کہ ہم چاہتے ہیں عدالتی حکم پر عملدرآمد ہو اور فواد کو اس عدالت میں پیش کیا جائے ، ہم چاہتے ہیں فواد کی گرفتاری غیر قانونی قرار دی جائے ۔

عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ فواد کی گرفتاری میں غیر قانونی کیا ہے ، جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے ۔جوڈیشل مجسٹریٹ نے فواد کا سروسز ہسپتال سے میڈیکل کرانے کا حکم دے دیا جس میں اس کے تمام ٹیسٹ ٹھیک آئے ۔عدالت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ میڈیکل کے بعد فواد کو اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے ۔جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پولیس کی راہداری ریمانڈ کی درخواست نمٹائے جانے کے بعد پولیس حکام فواد کو لے کر عدالت سے روانہ ہوگئے ۔فواد کو محکمہ انسداد دہشت گردی اور پولیس کے اہلکار لاہور کی کینٹ کچہری میں لائے جہاں انہیں اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے راہداری ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔فواد کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیے جانے پر پی ٹی آئی کے حامی وکلا نے اُن پر گل پاشی کی۔فواد چو دھری نے ضلع کچہری پیشی کے موقع پرغیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے ،یہ احمق لوگ ہیں،یہ عمران خان کو اکیلا کرنا چاہتے ہیں،پارٹی میں جو بھی بولتا ہے اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔پمز ہسپتال کے دو رکنی میڈیکل بورڈ نے فواد چودھری کا طبی معائنہ کیا۔ میڈیکل بورڈ کی تفصیل رپورٹ آج جاری کی جائے گی۔ فواد چودھری کے بلڈ پریشر، شوگر، خون کے نمونے ،ای سی جی ٹیسٹ ، چیسٹ ایکسرے کیے گئے ہیں۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق فواد چودھری کی صحت تسلی بخش ہے اور ان پر جسمانی تشدد نہیں پایاگیاہے ۔دوسری طرف فواد کی گرفتاری کے خلاف جہلم ، لاہور ، فیصل آباد ،راولپنڈی میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے ۔

 لاہور ،اسلام آباد(سیاسی رپورٹرسے ،اپنے نامہ نگار سے ،خصوصی نیوز رپورٹر، نیوز ایجنسیاں )چیئرمین تحریک انصاف   عمران خان نے کہا کہ جیل جانے سے نہیں ڈرتا ،فواد نے کون سا جرم کیا ؟الیکشن کمیشن کو منشی کہنے پرکہاں ایسی کارروائی ہوتی ہے ، جیل میں ڈالنا ہے تو ڈال دیں ،آخری سانس تک لڑوں گا۔امپورٹڈ حکومت مجھے کبھی گرفتار نہیں کر سکتی ، میری آواز بند کرنے کی کوشش کی جار ہی ،موجودہ سیٹ اپ پاکستان کو تباہی کی طرف لیکر جا رہا ہے ۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جنگل کے قانون کو معاشرے میں بنانا ری پبلک کہا جاتا ہے ، جن ممالک میں قانون کی بالادستی ہے وہ خوشحال ہیں ۔ اللہ پر ایمان ہے زندگی اور موت کا ایک وقت مقرر ہے ، مجھے جیل سے کوئی فکر نہیں، سب کو کہتا ہوں جیل سے نہیں ڈرنا ،کتنے لوگوں کو جیلوں میں ڈالیں گے ، ڈال دیں، پاکستانی اگر آج کھڑے نہ ہوئے تو آگے اندھیرا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کو منشی کہنے پر جمہوریت میں کسی کو پکڑا جاتا ہے ؟ اپنی قوم سے کہہ رہا ہوں آپ کا مستقبل آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے ۔انہوں نے کہا کہ قوم کو اپنے مستقبل کیلئے فیصلہ کرنا ہو گا، وعدہ ہے جب تک زندہ ہوں قوم کیلئے جدوجہد کروں گا، کبھی زندگی میں نہیں سوچا بیرون ملک جا کر رہوں، جتنی زندگی ہے اپنے ملک میں گزاروں گا، جیل سے نہیں ڈرنے والا، آج پاکستان کی معزز عدلیہ، وکلا سے مخاطب ہوں، یہ وقت ہے وکلا کو رول آف لا کیلئے کھڑا ہونا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ یہ جس طرف ملک کو لے جا رہے ہیں ملک کا کوئی مستقبل نہیں، انصاف اور قانون کی دھجیاں اڑا کر جنگل کا قانون نافذ کیا جا رہا ہے ، پہلی دفعہ لوگوں کی پاکستان سے امیدیں ختم ہو رہی ہیں،کیا وجہ ہے ہم آج تباہی کے راستے پر کھڑے ہیں، پاکستان اس وقت بڑے خطرناک موڑ پر کھڑا ہے ۔ ہماری حکومت میں آٹا 65 روپے اور آج 135 روپے کلوہو گیا، ہماری حکومت کے جانے کے بعد کیا ہوا آج بجلی کی قیمت دوگنا ہو گئی ہے ؟، ابھی مزید ملک میں مہنگائی ہوگی، پاکستان کے معاشی حالات کبھی بھی ایسے نہیں تھے ۔

موجودہ سیٹ اپ پاکستان کو تباہی کی طرف لیکر جا رہا ہے ، اللہ نے مجھے ہر نعمت سے نوازا ہے ، سب کچھ دیا، انہوں نے سازش کے ذریعے مجھے باہر نکالا تو لاکھوں لوگ میرے لیے سڑکوں پر نکلے ، کسی بھی وزیر اعظم کو ایسی عزت نہیں ملی تھی ۔ان کا کہنا تھاکہ میری آواز بھی بند کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے ، فواد کو کیوں گرفتار کیا گیا؟ قوم کو کہہ رہا ہوں آپ کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے ، آپ اللہ کے بعد اس ملک کے وارث ہیں۔افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے ہماری عدلیہ نے ہمارے بنیادی حقوق کی حفاظت نہیں کی۔محسن نقوی کو پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ بنانے کے متعلق بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں الیکشن کمیشن سے سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ کو پتا نہیں کہ آئین کے آرٹیکل 218 کی شق 3 کے مطابق آپ کی سب سے بڑی ذمہ داری صاف اور شفاف انتخابات کرانا ہے ، تو پھر محسن نقوی کو کس بنیاد پر نگران وزیر اعلیٰ بنایا اور دیگر ناموں کو کس بنیاد پر مسترد کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کیا الیکشن کمیشن کو پتا نہیں تھا کہ محسن نقوی کا بیک گراؤنڈ کیا ہے ، کس بنیاد پر اس کو نگران وزیراعلیٰ بنایا ہے ، کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ رجیم چینج میں سب سے بڑا ہاتھ اس شخص کا تھا کیونکہ یہ ان چند لوگوں میں شامل تھا جس نے ہماری حکومت گرانے کے لیے سب سے زیادہ بھاگ دوڑ کی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن چن کر اس شخص کو لایا ہے جو ہمارے خلاف تھا جس نے آتے ہی کارنامے دکھانا شروع کردئیے ہیں۔ان کا کہنا تھا محسن نقوی کو لانے کے بعد یہ لگ رہا ہے کہ ان کا انتخابات کرانے کا کوئی ارادہ نہیں اس لیے میں عدلیہ سے پوچھتا ہوں کہ اب آپ کی ذمہ داری ہے کیونکہ جیسے ہی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو آئین واضح طور پر کہتا ہے کہ 90 دن کے اندر انتخابات کرانے ہیں۔میں واضح کردوں کہ میں آخری گیند تک لڑوں گا ۔انہوں نے کہا کہ آج سری لنکا کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکم دیا ہے کہ اپنی فوج کو آدھا کردو، اسی طرح مصر کو بھی آئی ایم ایف نے حکم دیا ہے کہ فوج کے فضول خرچے کم کرو۔ عمران خان کا زمان پارک میں پارٹی کے سینئر رہنمائوں سے گفتگو میں کہناتھاکہ بائیس کروڑ عوام تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ امپورٹڈ حکومت مجھے کبھی گرفتاری نہیں کر سکتی ان کے اپنے کیسز عدالتوں میں ہیں، فواد تحریک انصاف کے ہراول دستے کے کارکن ہیں ۔سابق وزیر خارجہ اور رہنما پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی نے فواد کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ‘فواد کی بغیر وارنٹ گرفتاری اس ملک کی جمہوریت اور قانون کی بالادستی پر ایک زوردار طمانچہ ہے ۔اسد عمر نے کہا کہ بے گناہ فواد چودھری کو فوری رہا کیا جائے ، دلیل کا جواب دلیل سے دیں ہتھکڑی سے نہیں۔تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصرنے کہا کہ اگر خیال ہے کہ فواد کی گرفتاری سے تحریک انصاف دب جائے گی تو یہ انکی غلط فہمی ہے ۔ اگر عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو پورے ملک سے عوامی ردعمل آئے گا، محسن نقوی نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے وفاداری کا پہلا ثبوت دیدیا ہے ۔ پنجاب بار کونسل نے فواد چودھری کی گرفتاری کی مذمت کی ہے ۔پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین جعفر طیار بخاری نے فواد چودھری کیخلاف مقدمہ خارج کرنے کا مطالبہ کیا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں