عمران کے وارنٹ منسوخ،رہائشگاہ پر پولیس آپریشن:اسلام آباد میں کارکنوں اور پولیس میں جھڑپیں گرفتاریاں،سابق وزیراعظم کو حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت ،سماعت 30 مارچ تک ملتوی

عمران  کے  وارنٹ منسوخ،رہائشگاہ  پر  پولیس  آپریشن:اسلام  آباد  میں   کارکنوں  اور   پولیس  میں   جھڑپیں  گرفتاریاں،سابق  وزیراعظم  کو  حاضری  لگا  کر   واپس  جانے  کی   اجازت ،سماعت 30  مارچ  تک  ملتوی

اسلام آباد (خبر نگار ،نیوز رپورٹر،اپنے نامہ نگار سے ،خصوصی رپورٹر)چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس میدان جنگ بن گیا،پولیس اور کارکنوں میں جھڑپیں ہوئیں ، لاٹھی چارج، شیلنگ ، پتھرائو کیا گیا ، 25موٹرسائیکلیں، گاڑیاں نذر آتش کردی گئیں۔

 اہلکاروں سمیت 43زخمی ہوئے ،کئی افراد گرفتار کرلئے گئے چیئرمین پی ٹی آئی گاڑی میں ہی حاضری لگا کر واپس چلے گئے ، عدالت نے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے 30مارچ کو پھر طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان کی عدالت پیشی کے موقع پر پولیس کی جانب سے خصوصی سکیورٹی انتظامات کئے گئے تھے جبکہ ٹریفک کا بھی الگ پلان جاری کیا گیا ، وفاقی پولیس کے علاوہ رینجرز، پنجاب پولیس اور سادہ لباس والے اہلکاروں کی کثیر تعداد تعینات کی گئی،غیر متعلقہ افراد کے علاوہ میڈیا کو بھی جوڈیشل کمپلیکس جانے سے روک دیاگیا،اور بعد ازاں محدود میڈیا افراد کو داخلہ کی اجازت دے دی گئی،انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتاریوں کا آغاز صبح سے ہی شروع کر دیا گیا تھا ، تاہم دوپہر کو عمران خان کی آمد کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس میں کارکنوں کے داخلے کے معاملہ پر تصادم کا آغاز ہوا جو چھ گھنٹے تک جاری رہا ، پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں تصادم سے 43 افراد زخمی ہوئے ، زخمیوں میں 5 تحریک انصاف کے کارکن اور ایس ایس پی آپریشنز ملک جمیل احمد ، ایس پی صدر نوشیروان علی، ایس پی رورل حسن جہانگیر، ایس پی پلان اینڈ پٹرول ڈاکٹر سمیع ملک سمیت 38 پولیس والے شامل ہیں ،زخمیوں کو طبی امداد دے کر ہسپتال سے فارغ کردیاگیا، ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق مظاہرین کی طرف سے پولیس پر چاروں اطراف سے شدید حملہ کیا گیا جس میں شرپسند مظاہرین نے 25سے زائد موٹر سائیکلوں اور چار پولیس گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی اور توڑ پھوڑ کی ، مشتعل مظاہرین نے پولیس چوکی اور درختوں کو بھی آگ لگا دی اور لگاتار پولیس پر چاروں اطراف سے حملہ کرتے رہے ،ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز،سعد حسن اور دیگر کے علاوہ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث، بابر اعوان اور دیگر پیش ہوئے ، اس موقع پر اسد عمر، شبلی فراز، عمر ایوب،مرادسعید، عامرکیانی، وسیم شہزاد، علی نواز اعوان، راجہ خرم نواز اور دیگر بھی جوڈیشل کمپلیکس موجودتھے ، سماعت شروع ہونے پر عمران خان کمرہ عدالت نہ پہنچ سکے ،خواجہ حارث نے کہاکہ پہلے ٹول پلازہ پر روکا گیا اور اب جوڈیشل کمپلیکس کے باہر روک لیاگیاہے ،عمران خان لاہور سے عدالت پیش ہونے کیلئے ہی آئے ہیں۔

کارکن آئے ہوئے ہیں کیسے روک سکتے ہیں،عدالت نے استفسار کیاکہ عمران خان کہاں پہنچے ، جس پر وکیل نے کہاکہ عمران خان پہنچ گئے ہیں، جوڈیشل کمپلیکس کے باہر ہیں،الیکشن کمیشن وکیل نے کہاکہ عدالتی وقت ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوتاہے اب تک پیش ہو جانا چاہیے ،عدالت نے کہاکہ کوئی آرہاہے تو روک نہیں سکتے ،کوئی مسئلہ نہیں کوئی آناچاہ رہاہے تو کوئی بات نہیں، ایسا نہیں کہ میں کہوں کہ ساڑھے 3 بج گئے تو بات ختم ہوگئی،اگر کوئی پیش ہونا چاہ رہا ہے تو میں یہیں موجود ہوں،خواجہ حارث نے کہاکہ عمران خان کو سکیورٹی کی جانب سے روکا جا رہا ہے ،شیلنگ کی جارہی ہے ،عدالت کے جج نے کہاکہ میں انتظار کرنے کو تیار ہوں،الیکشن کمیشن وکیل امجد پرویز نے کہاکہ ہمیں نہیں پتا باہر ہو کیا رہا ہے ،کیا واقعی سکیورٹی نے عمران خان کو روکا ہوا ہے یا وہ خود رکے ہیں،ان کو معلوم ہے کہ ساڑھے 8 بجے آپ کی عدالت کا وقت شروع ہوتا ہے ،اب وہ لاہور سے نکلیں ہی ساڑھے 8 بجے تو کیا کریں،عدالت نے کہاکہ عمران خان پہنچ نہیں پا رہے ،اللہ خیر کرے ،میں یہیں بیٹھاہوں ،بیرسٹرگوہر علی نے کہاکہ ورکرز آئے ہوئے ہیں تو عمران خان کاقصور تو نہیں،عدالت نے کہاکہ باہر جو ہورہاہے الیکشن کمیشن کے وکلا کے نوٹس میں بھی ہوناچاہیے ،عدالت نے عمران خان کے کمرہ عدالت میں پہنچنے تک وقفہ کردیا، جوڈیشل کمپلیکس کے باہر ہونے والی شیلنگ کے اثرات کمرہ عدالت میں بھی پہنچنا شروع ہوگئے ،بعدازاں عمران خان نے وکلاکے ذریعے باقاعدہ تحریری درخواست بھی عدالت جمع کرادی جس میں کہاگیا کہ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر ہوں،روک دیاگیاہے ،گھنٹوں سے باہر موجودہیں اندرنہیں آنے دیاجارہا درخواست میں عدالتی عملہ کو بھیج کر گیٹ پر ہی حاضری لگانے اور پولیس کے خلاف توہین عدالت کارروائی کی استدعا کی گئی،عدالت کے جج نے کہاکہ یہ آپ نے درخواست دی ہے ، میں بندہ باہر بھجوا دیتا ہوں، عدالت نے عملہ کو ہدایت کی کہ باہر جائیں اور عمران خان کو گاڑی سمیت اندر لے کر آئیں،پولیس سے کہیں جو ایس او پی طے ہے اس کے مطابق ملزم کو آنے دیں، رکاوٹ نہ بنیں ،ہم جنگ نہیں سکون چاہتے ہیں، دوران سماعت آنسو گیس کا ایک شیل کمرہ عدالت کی کھڑکی پر آلگا اور آنسو گیس کے اثر کو کم کرنے کیلئے کمرہ عدالت کا دروازہ بند کردیا گیا جبکہ پتھراؤ کا اثر کمرہ عدالت کی کھڑکیوں پر بھی ہوتارہا، اسی دوران عمران خان کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہوگئی جبکہ پولیس شیلنگ کے باعث عمران خان کی گاڑی واپس نکل گئی،عدالت نے امجد پرویز ایڈووکیٹ سے کہاکہ سموتھ پروسیڈنگ ہونی چاہیے ، یہ سین ہے تو کیا کریں آپ ہی بتائیں،بابر اعوان ایڈووکیٹ نے نائب کورٹ کو باہر بھیج کر عمران خان کی حاضری لگانے اور حاضری سے استثنیٰ کی استدعا کی اور کہاکہ جو حالات ہیں اس کے پیش نظر حاضری سے استثنیٰ دیا جانا چاہیے ، دوران سماعت ایک کارکن کمرہ عدالت گھس آیا اور کہاکہ میں لاہور سے ان کے ساتھ کوآرڈینیشن کرتاآرہا ہوں، ان پر پتھراؤ ہوا انہوں نے مجھے مارنا شروع کردیا، بابر اعوان نے کہاکہ باہر بہت گڑبڑ ہے ، آپ میری بات مان لیں آج استثنیٰ دے دیں،اس موقع پر عدالت نے نائب کورٹ کو گیٹ پر عمران خان کے دستخط لینے کا حکم دے دیااور کہاکہ گیٹ پر ہی دستخط لے لیں۔

یہی حاضری تصور ہوگی، آج سماعت واقعی ممکن نہیں ہے ،سب چھوڑ دیں، میں تاریخ کا کرتا ہوں،دستخط ہوجائیں، پھر آگے ڈسکس کرلیں گے ،عمران خان کے دستخط ہو جائیں پھر سب منتشر ہوجائیں،عمران خان سے دستخط لیں اور انہیں کہیں یہاں سے چلے جائیں،دوران سماعت وکیل انتظار پنجوتھا نے عدالت سے کہاکہ ہمیں مارا جا رہا ہے ، شبلی فراز کو ایس پی نوشیروان نے پکڑ لیا ہے ،جس پر عدالت نے شبلی فراز کو پیش کرنے کا حکم دے دیا اور پولیس نے شبلی فراز کو عدالت میں پیش کردیا،شبلی فراز نے کہاکہ پولیس نے مجھ پر تشدد کیااور روکے رکھا،اس موقع پر شبلی فراز آبدیدہ ہوگئے ،بعدازاں شبلی فراز ایس پی اور نائب کورٹ کے ساتھ عمران خان کے دستخط لینے چلے گئے ، عدالت نے خواجہ حارث سے استفسار کیاکہ فرد جرم کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں،کیا آج آپ بحث کرنا چاہتے ہیں،جس پر خواجہ حارث نے کہاکہ نہیں آج تو ممکن نہیں،امجد پرویر ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں خواجہ صاحب کے ساتھ ساری رات جاگتا رہا ہوں،میں مریم نواز کا وکیل تھا، خواجہ حارث نواز شریف کے وکیل تھے ،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ فرد جرم عائد ہونے سے قبل درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل ہوں گے ، درخواست قابل سماعت ہونے کے بعد فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا، عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دستخط ہونے تک سماعت ملتوی کردی جس کے بعد عمران خان سے دستخط کیلئے جانے والے شبلی فراز اور ایس پی سمیع ملک واپس کمرہ عدالت پہنچ گئے ، عدالت نے استفسار کیاکہ آرڈر شیٹ واپس نہیں آئی؟جس پر ایس پی نے کہاکہ آرڈر شیٹ شبلی فراز صاحب کے پاس ہے ، اس موقع پر بیرسٹر گوہر علی روسٹرم پر آگئے اور کہاکہ میں ایس پی صاحب اور شبلی فراز کے ساتھ حاضری کیلئے گیا،میں نے عمران خان سے دستخط کروائے ،واپسی پر ہم پر شیلنگ ہوئی، ایس پی صاحب نے مجھ سے فائل لے لی،اب ایس پی صاحب عدالت کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں،اس تمام واقعے کی متعدد وڈیوز بھی موجود ہیں،ایس پی سمیع ملک نے کہاکہ اسی وقت شیلنگ اور پتھراؤ شروع ہوگیا۔

میں نے اپنا رومال بھی نکال کر شبلی فراز کو دیا، عدالت کے جج نے کہاکہ یہ بہت اہم عدالتی دستاویز ہے ، اس کو ڈھونڈ کر لائیں،وہ ہمارے جوڈیشل ریکارڈ کا حصہ ہے ، جس پر ایس پی سمیع ملک نے کہاکہ آپ نے فائل شبلی فراز کے حوالے کی تھی،بیرسٹر گوہر علی نے کہاکہ عمران خان کے دستخط کی ویڈیو سب نے بنائی کہ وہ دستخط کر رہے ہیں،عدالت نے ایس پی کو دستاویز لانے کیلئے بھیجتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا، جس کے بعد سماعت شروع ہونے پر ایس پی سمیع ملک نے کہاکہ میں زخمی ہو کر گر گیا تھا، فائل آگے پیچھے ہوگئی،جس پر عدالت کے جج نے کہاکہ بس چھوڑ دیں،یہ بتا دیں سائن ہو گئے تھے ؟، اس پر ایس پی نے کہاکہ مجھے نہیں معلوم کہ سائن ہوئے یا نہیں، خواجہ حارث نے کہاکہ ان کا بیان ریکارڈ کریں، یہ سمجھتے ہیں ان کی نوکری بہت پکی ہے ،یہ 3 بار بیان بدل چکے ہیں،ایس پی نے کہاکہ میں جان بوجھ کر فائل کیوں گماؤں گا، بیرسٹر گوہر علی نے کہاکہ ہمارے پاس اس سب کی ویڈیو ہے ،جب سائن ہوئے تو سب نے پی ٹی آئی کے نعرے لگائے ، خان صاحب کے تمام کاغذات پر دستخط تھے ، جس پرعدالت نے دونوں فریقین کو بیان لکھ کر دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ آپ دونوں اپنا اپنا بیان لکھ کر جمع کرائیں کہ کیا ہوا، عدالتی دستاویز کی گمشدگی کا کوئی حل نکالتے ہیں،عدالت نے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کہاکہ آئندہ سماعت پر کیس کے قابل سماعت ہونے پر دلائل ہوں گے ،اور عمران خان کی حاضری بھی ہوگی، وہ الگ بات ہے کہ صورتحال کیاہوگی، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم اس روز استثنیٰ دائر کریں گے ، عدالت نے سماعت30 مارچ تک کیلئے ملتوی کردی۔عمران خان کی پیشی کے روانہ ہونے کے بعد مظاہرین سے علاقہ خالی کروایا گیا اور سڑکوں کو ٹریفک کی آمد و رفت کے لئے کھول دیا گیا۔دوسری طرف اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے امجد خان نیازی کوگرفتارکرلیا گیا ہے ۔امجد خان نیازی کو تھانہ رمنا منتقل کردیا گیا۔پولیس نے امجد خان نیازی کوعمران خان کی گاڑی کے آگے سے گرفتار کیا گیا۔

لاہور(سپیشل رپورٹر ،اپنے خبر نگار سے ،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)چیئرمین عمران خان کے اسلام آباد عدالت پیشی کیلئے روانہ ہونے کے بعد ان کی رہائش گاہ زمان پارک پولیس نے بھاری نفری کے ساتھ گرینڈ آپریشن کیا، زمان پارک کی جانب جانے والے تما م راستے رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دئیے ،جن میں کینال روڈ پل نہر مال سے جانب دھرم پورہ ،دھرمپورہ سے جانب مال روڈ ،سندرداس چوک سے جانب سلطان پلی(ٹھنڈی سڑک)،ڈیورنڈ چوک سے جانب سندرداس چوک،میو گارڈن سے جانب سلطان پلی کو بیرئیر ، رکاوٹیں اور پولیس کی بھاری نفری کھڑی کر کے بند کردیا گیا اور اس طرف کسی کو نہیں جانے دیا گیا ، پولیس نے زمان پارک کو چاروں اطراف سے گھیر لیا،پولیس نے آپریشن کے دوران وہاں سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو لاٹھی چارچ اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا، درجنوں کارکنان گرفتارکر کے مختلف تھانوں میں بند کر دیا ،پولیس نے دعویٰ کیا کہ گھر کے اندر سے اہلکاروں پر فائرنگ بھی کی گئی، پٹرول بم اور پتھر بھی پھینکے گئے جس کے باعث تین سے زائد اہلکار پتھر لگنے سے زخمی ہوئے ۔پولیس نے دروازہ نہ کھولنے پر عمران خان کے گھر کا مین گیٹ توڑ دیا ،پولیس نے کرینوں کی مدد سے تمام کیمپ اور خیمے اکھاڑ دیئے ،لوہے کے بیرئیر توڑ دئیے ، فلیکسز اتار دیں اور ریت بھرے توڑوں اور بوروں سے بنے مورچے اور بنکربھی ہٹا دئیے ، وہاں کھڑی گاڑی کو ڈنڈے مار کر نقصان پہنچایا،کنٹینرز بھی ہٹا دئیے گئے ۔خیمے کرسیاں ہٹا کرانکروچمنٹ ٹرک میں ڈال کر لے گئے ۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہل کار کیمپ اکھاڑنے میں مصروف نظر آئے جبکہ پی ٹی آئی کارکنان کی طرف سے بھی مزاحمت اور پتھراوئوکیا گیا ، گرفتارکیے گئے پی ٹی آئی کارکنان کو مختلف تھانوں میں منتقل کردیا گیا،پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ زمان پارک سے پٹرول بھری بوتلیں(پٹرول بم)، 16رائفلیں، غلیل اور کینچے برآمد کر لیے ہیں ،آپریشن کے بعد بھی وہاں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے ،زمان پارک میں پولیس آپریشن کے بعد پولیس نے سندر داس روڈ پر پی ٹی آئی کے رہنمائوں حماداظہر،فواد چودھری ،شیری مزاری، عثمان ڈار میاں محمود الرشید، اور شہبازگل کوروک لیا اور انہیں زمان پارک نہیں جانے دیا۔وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کا کہنا تھاکہ انہیں اپنے افسروں سے پوچھ کر زمان پارک اندر جانے دیں گے ۔

اس دوران پولیس کی بڑی نفری سندر داس روڈ پر پہنچ گئی اور وہاں اینٹی رائیٹ فورس بھی تعینات کردی گئی۔پولیس کی جانب سے پریزن وین بھی موقع پر پہنچا دی گئی ۔زمان پارک سارا دن آپریشن کے نام پر میدان جنگ بنا رہا،پولیس تشدد کے دوران عمران خان کے گھر کے اندر موجود افراد زخمی ہوگئے ،آپریشن کے دوران عمران خان گھر لوٹ مار کا منظر دکھائی دیتا رہا،پولیس نے برآمد ہونے والا اسلحہ و دیگر سامان قبضہ میں لے لیا، آپریشن کے دوران زمان پارک میں رہائش پذیر دیگر افراد نے پولیس کے خلاف شدید احتجاج کیا،ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے گھروں کے شیشے توڑنے کے علاوہ لاکھوں روپے کا نقصان کیا ہے ۔خیال رہے عمران خان کے گھر زمان پارک میں آپریشن سرچ وارنٹ کے بعد شروع کیا گیا،پولیس نے تھانہ ریس کورس میں درج مقدمہ 410/23 میں سرچ وارنٹ حاصل کیا ،جو کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جاری کیا ،سرچ وارنٹ کی کاپی روزنامہ دنیا نے حاصل کر لی ،جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے گھر سرچ وارنٹ کے وقت لیڈی پولیس انسپکٹر بھی ساتھ لازمی ہو ،لیڈی پولیس افسر انسپکٹر رینک سے کم نہ ہو ۔نگران صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کے ہمراہ سنٹرل پولیس آفس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہے کہ زمان پارک آپریشن نوگوایریا ختم کرانے کیلئے کیا، عدالتی احکامات کی تعمیل پر پولیس،رینجرز پرحملے ،املاک تباہ کی گئیں،آئی جی پنجاب نے کہا سرچ وارنٹ پر کارروائی کی، کسی بے گناہ کو گرفتار نہیں کیا،میڈیا سے گفتگو میں نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے مزید کہا کہ ہم نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ کسی بھی علاقے کو نو گو ایریا نہیں بننے دیں گے ۔ وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کیلئے لاہور پولیس نے اسلام آباد پولیس کی معاونت کی اور اس دوران شدید مزاحمت کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس پر پٹرول بم سے حملے کئے گئے اور انکو پتھروں اور ڈنڈوں سے مارا گیا۔ پورے صوبے کے حالات اچھے ہیں صرف لاہور کے ایک کونے میں حالات خراب کرنے کی کوشش کی جاری تھی جس پر قابو پا لیا گیا ہے ۔ کارروائی کے دوران پولیس پر اندرسے فائرنگ ہوئی اور پٹرول بم پھینکے گئے ۔ انہوں نے کہا پی ٹی آئی سے طے پایا تھا کہ پولیس کو مطلوب افراد کے وارنٹس کی تعمیل کیلئے قیادت تعاون کریگی مگر ایسا نہیں ہوا۔پریس کانفرنس کے دوران آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ ہائیکورٹ نے واضح کیا کہ تفتیش کے عمل کو کسی صورت نہیں روکا جاسکتا، عدالتی حکم پر پولیس نے جدید طریقہ تفتیش کو استعمال کرتے ہوئے تصاویر،سیف سٹی کیمروں فوٹیجز، جیو فینسنگ، سپیشل برانچ کی رپورٹس اور دیگر شواہد کی بنیاد پر ان شرپسندوں کی فہرست ترتیب دی جو مختلف جگہوں سے آکر پولیس اور رینجر کی ٹیموں پر حملوں میں ملوث تھے ، ان کو گرفتار کرنے کیلئے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور، ایس پی انویسٹی گیشن سمیت دیگر لیڈی افسران و اہلکاروں کے ساتھ پولیس ٹیمیں زمان پارک پہنچیں، اس موقع پر پولیس پر ایک بار پھر پتھراؤ کیا گیا تاہم پولیس نے شدید مزاحمت کے باوجود اس علاقے کو کلیئر کیا اور متعدد افراد کو گرفتار کیا۔ آئی جی پنجاب نے کہاکہ میں یقین دلاتا ہوں کہ کسی بھی بے گناہ شخص کی گرفتاری نہیں ڈالی جائے گی ۔ جہاں سے پولیس پر پٹرول بم پھینکے اور غلیلوں سے پتھر برسائے گئے ، وہاں حملہ کرنے والے شرپسند عناصر کو گرفتار کر لیا گیا۔ پریس کانفرنس میں آئی جی پنجاب نے برآمد ہونے والا خطرناک آتشیں اسلحہ ، گولیاں، پٹرول بم سمیت پولیس پر حملوں میں استعمال ہونے والی دیگر اشیاء میڈیا نمائندگان کو دکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ٹیموں نے غیر مسلح رہتے ہوئے شرپسندی کا جوانمردی سے سامنا کیا اور عدالتی حکم پر پیش قدمی کو روکا،قانون اور انصاف کے تقاضے ہر صورت پورے کئے جائیں گے اور درج ہونے والے کیسز کو یکسو کیا جائے گا۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ٹویٹ میں کہا کہ میں فوری طور پر اپنے گھر کے تقدس کی پامالی ، کارکنوں اور گھریلو عملے کے خلاف تشدد کا معاملہ عدلیہ کے سامنے اٹھانے جا رہا ہوں، پولیس آپریشن کر کے توہین عدالت کی گئی،یہ لوگ بھاری ہتھیاروں کے ساتھ لیس ہو کر گھر میں گھسے ، اس سے بھی بدتر بات یہ کہ انہوں نے یہ اس وقت کیا جب میں خود اسلام آباد میں تھا اور بشریٰ بی بی جو کہ مکمل طور پر پرائیویٹ اور غیر سیاسی ہیں، گھر میں اکیلی تھیں، یہ چادر اور چاردیواری کی حرمت کے اسلامی اصول کی سراسر خلاف ورزی ہے ،میرے گھر پر حملہ توہین عدالت تھا،انہوں نے کس قانون کے تحت گیٹ توڑا، درخت اکھاڑ دیئے ،میں عوام کا شکر گزار ہوں جو میری عدالت میں پیشی کے وقت آئے ،ہر کوئی جانتا ہے کہ بدمعاشوں کی حکمرانی کا ایک ہی مقصد ہے کہ انتخابات ختم ہونے تک مجھے کسی بھی طرح سے جیل بھیج دیا جائے ،مجھ پر پہلے ہی 96 مقدمات ہیں اور مجھے یقین ہے عدالتی مقدمات کی اپنی پہلی سنچری مکمل کروں گا۔یہ لندن پلان کا حصہ ہے جہاں اس بات کا وعدہ کیا جا چکا ہے کہ مفرور نواز شریف کو اقتدار میں واپس لایا جائے گا، تمام کیسز میں ضمانت کے باوجود پی ڈی ایم کی حکومت مجھے گرفتار کرنا چاہتی ہے ، حکومت مسلسل ہمارے لیڈران اور کارکنان کو نشانہ بنارہی ہے ، اسلام آباد میں 70 سے زائد کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا۔غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو میں انہوں نے کہا میری جان کو پہلے سے زیادہ خطرات لاحق ہیں،مجھے گرفتار کیا گیا تو پارٹی کی قیادت قائم کی گئی کمیٹی کرے گی۔چیئرمین تحریک انصاف آج تین بجے دوپہر کارکنوں سے خطاب کریں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں