موجودہ حالات میں انتخابات خونیں ہونگے:وفاقی حکومت:آج سپریم کورٹ جائینگے:تحریک انصاف

موجودہ  حالات  میں  انتخابات  خونیں  ہونگے:وفاقی  حکومت:آج  سپریم  کورٹ  جائینگے:تحریک  انصاف

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر،خصوصی نیوز رپورٹر، سیاسی رپورٹر،دنیا نیوز)وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے الیکشن کمیشن کے دو صوبوں میں انتخابات موخر کرکے 8 اکتوبر کو کرانے کے فیصلے کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ملک کے معروضی حالات ایسے ہی فیصلے کے متقاضی ہیں۔

 موجودہ حالات میں الیکشن کرائے گئے تو یہ خونیں ہونگے ، جمہوری نظام کو چلنے دیں تیسرے آپشن کے لئے حالات ساز گار نہ کریں، تنقید کی بجائے آئیں بیٹھ کر اس کا حل نکالیں،اگر عمران خان گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کرانا چاہتے ہیں تو آئیں ہم تیار ہیں،عمران خان اگر دوبندے بھیج دیں تو ہم بھی دو لوگ بیٹھ جائیں گے ،اعظم نذیر تارڑ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا پاکستان ایک سنگین سیاسی اور معاشی بحران کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے ، آج جیو پولیٹیکل حوالے سے ہماری جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے معاشی بحران سے نمٹنے میں خاطر خواہ مدد نہیں مل رہی، ہمارے وزیر خزانہ معاشی صورتحال میں بہتری کے لئے دن رات کام کررہے ہیں، ہمیں بحیثیت قوم کفایت شعاری کی طرف چلنا ہوگا،ٹیکس کلچر کو بہتر بنانا، ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ترجیح ہونی چا ہئے ، ملک میں سیا سی بحران کی سی کیفیت ہے ، ایک شخص کی انا کی بھینٹ دو اسمبلیاں چڑھ گئیں ہیں، وہاں پر اسمبلیاں تحلیل ہونے کی بعد کی صورتحال، دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے دو صوبوں میں الیکشن کی بات آئی تو ایک طرف کی سوچ تھی کہ اگر ایک شخص کی خاطر دو صوبوں میں الگ سے الیکشن کرایا جائے گا تو وہ ہمیشہ متنازعہ رہے گا، جنرل ضیا الحق کے بدترین مارشل لا بھی انتخابات کی وجہ سے آیا تھا، سیاسی جماعتوں نے ملکر ایک طریقہ کار طے کیا، 18 ویں ترمیم کے بعد آئین پاکستان میں نگران حکومتوں کا طریقہ کار سمو دیا گیا ہے ، پور ے ملک میں انتخابات ایک ہی دن کو ہونا ہیں، اسی آئین کے تحت پنجاب میں اتفاق رائے نہ ہونے پر الیکشن کمیشن جبکہ کے پی کے میں اتفاق رائے سے نگران حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے ، 272 کے ہائوس میں پنجاب کی نشستیں 141 اور کے پی کے کو شامل کرلیں تو ایک بڑا حصہ بن جاتا ہے ، آج کل ملک میں سول سوسائٹی کی ایک مہم چل رہی ہے کہ ملک میں ایک ہی وقت میں الیکشن ہونے چاہئیں، حکومتی اور عسکری اداورں نے الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو واضح بتادیا ہے کہ دو الگ الگ انتخابات پر الگ سے اخراجات آئیں گے۔

آئین کے آرٹیکل 254 میں لکھا گیا ہے اگر کوئی کام مقررہ مدت میں مکمل نہیں کیا جاتا تو وہ غیر آئینی نہیں ہوگا، 2007 میں کے پی کے اسمبلی کی تحلیل اکتوبر میں ہوئی، باقی اسمبلیوں کی مدت 16 نومبر کو مکمل ہوئی،الیکشن کمیشن نے تب بھی چاروں صوبوں اور مرکز میں ایک ہی دن الیکشن کرائے تھے ، بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے الیکشن فروری کے آخر میں چلے گئے ، اسی 254 آرٹیکل کے تحت یہ کیا گیا ہے ، پاکستان کی تاریخ میں مرکز اور صوبوں کے الیکشن ایک ہی دن ہوتے رہے ہیں، 1997 سے لیکر آج تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی روز ہوتے آئے ہیں، آرٹیکل 218 کی سیکشن3 کے تحت الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ الیکشن شفاف، غیرجانبدارانہ ہوں، ایک دفعہ ہی الیکشن ہونے سے تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی ماحول فراہم کیا جاتا ہے ، صدر مملکت کی جانب سے الیکشن شیڈول د ئیے جانے کے بعد جب الیکشن کمیشن نے زمینی حقائق کا جائزہ لیا تو اس کے بعد ملک کی معاشی، سکیورٹی اور سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے 8 اکتوبر کا شیڈول دیا اس وقت تک قومی اسمبلی بھی تحلیل ہو چکی ہوگی اور وہاں بھی نگران حکومت ہوگی،ماضی میں فاٹا،بلوچستان، سندھ سمیت مختلف حصوں سے خانہ شماری کے حوالے سے شکایات موصول ہوئیں جس پر فیصلہ ہوا کہ آئندہ انتخابات ڈیجیٹل مردم شماری پر انتخابات ہونگے ،مردم شماری کے نتائج چار ہفتوں میں آجائیں گے ،یہ کیسے ممکن ہے یہ دو صوبوں میں پرانی مردم شماری اور باقی ملک میں نئی مردم شماری کے تحت الیکشن ہوں، الیکشن کمیشن خودمختار،بااختیار ادارہ ہے ، الیکشن کمیشن ہر طریقہ استعمال کرسکتا ہے جس سے الیکشن صاف اور شفاف ہوں،الیکشن کمیشن بااختیار ہے کہ الیکشن شیڈول اور تاریخوں میں تبدیلی کرے ، آئین کے آرٹیکل 252،الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات موجود ہیں، پہلے بھی جو شیڈول تھا وہ 90 دن کی مدت کے اندر نہیں تھا، اگر کسی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام آئے گا تو اس میں پاکستان سب سے زیادہ اہم ہے ۔ سیاست کی بنیاد ہی گفت و شنید پر ہے ، بدقسمتی سے عمران خان اپنی انا، سوچ اور نظریہ رکھتے ہیں، پونے چار سال تک عمران خان نے اپوزیشن سے مصافحہ تک نہیں کیا، آئین کہتا ہے کہ اپوزیشن سے بات کریں تو بات نہیں کی، ملک ایسے چلتے ہیں ؟ آج اگر عمران خان کو سمجھ آگئی ہے تو اچھی بات ہے ،ریاست سب سے پہلے ہے ، پاکستان کے لئے اکٹھے بیٹھیں، سیاسی عہدے لینے سے کسی نے بڑا سکور نہیں کر لینا، ان حالات میں الیکشن کرائے گئے تو یہ خونیں الیکشن ہونگے ، جمہوری نظام کو چلنے دیں۔

تیسرے آپشن کے لئے حالات ساز گار نہ کریں ۔دریں اثنا وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں توڑ پھوڑ اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کے مقدمات پر نامزد ملزموں کیخلاف کارروائی ہو گی، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ پنجاب ذوالفقار حمید کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی سے گریڈ 18 کے افسران اس کے ممبران ہونگے جبکہ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر اسلام آباد بھی اس کا حصہ ہونگے ، یہ جے آئی ٹی اسلام آباد میں درج ہونے والے چار مقدمات کی 14 دن میں تحقیقات کر کے چالان عدالت میں پیش کر کے انہیں قانون کے کٹہرے میں لائے گی۔ رانا ثنا اللہ نے الیکشن کے التوا کے حوالے سے کہا سپریم کورٹ کے حکم کو رد کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے ،موجودہ حالات میں اگر تدبر،دانائی سے فیصلہ نہ ہوا تو فساد، انارکی،افراتفری پھیلے گی، سیاسی،معاشی استحکام نہیں آئیگا’ ساری اسمبلیوں کے الیکشن نگران حکومتوں کی موجودگی میں بیک وقت شفاف اور منصفانہ ہونگے تو ملک کیلئے بہتر ہو گا۔علاوہ ازیں وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے کہا الیکشن کمیشن کا فیصلہ پاکستان کے مفاد میں ہے ،الیکشن کمیشن نے معاشی، سیاسی اور سکیورٹی کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا، آئین کے آرٹیکل 218کے تحت الیکشن کمیشن کو یقینی بنانا ہے کہ شفاف،غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں،آرٹیکل 224کا تقاضا ہے کہ انتخابات کے وقت وفاق اور صوبائی اکائیوں میں نگران حکومتیں قائم ہوں،الیکشن کمیشن نے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا،الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ملک میں سیاسی استحکام کی ضمانت ملے گی،تحفظات تھے کہ ایک آدمی کی انا کی وجہ سے دو صوبوں پر زبردستی الیکشن مسلط کیاجارہا ہے ،ایسے قومی اسمبلی کا الیکشن ہوگا تو دو صوبوں میں حکومتیں قائم ہوں گی،30اپریل کو دو صوبوں میں الیکشن ہوتے تو ہمیشہ کے لئے متنازعہ ہوجاتے ، الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے سے ملک کو بڑے آئینی بحران سے بچا لیا ہے ، الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا،ملک میں مردم شماری کا عمل جاری ہے ،پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مردم شماری سے پہلے اور دیگر میں مردم شماری کے بعد انتخابات ہوں، یہ نہیں ہو سکتا، ایک شخص کی مرضی پر آئین نہیں چل سکتا،وہ جب چاہے آئین توڑ دے ،جب چاہے اسمبلی توڑ دے ، یہ نہیں چلے گا۔ 

لاہور( سپیشل رپورٹر، جنرل رپورٹر، نیوز ایجنسیاں ) تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے فیصلے کے خلاف آج جمعہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات ملتوی کر کے آئین کی دھجیاں اڑائیں، عدلیہ پر اعتمادہے وہ آئین سے انحراف نہیں ہونے دیں گی،سپریم کورٹ،لاہور ہائیکورٹ بارزسمیت 96 ایسوسی ایشنزنے  فیصلے کو مسترد کر دیا،وکلاء کی تحریک چلے گی تو تحریک انصاف ان کے پیچھے کھڑے ہو گی۔تحریک انصاف کے سیکرٹری اسد عمر نے مرکزی رہنما فواد چودھری اور سینیٹر اعجاز چودھری کے ہمراہ پریس کانفرنس کی ۔ اس دوران اسد عمر نے کہا کہ آئین اور جمہوری طرز عمل کے بغیر پاکستان کا تصور ہی پورا نہیں ہوتا،الیکشن کمیشن کے فیصلے نے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں،الیکشن کمیشن نے پتہ نہیں کون سے آئین کی تشریح پڑھی کہ نئی تاریخ کا فیصلہ دیا،عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ آئینی طور پر اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا،بیرسٹر علی ظفر اس کے خلاف آج جمعہ کے روز پٹیشن دائر کر دیں گے ، عمران خان نے سینیٹر زصاحبان کو ہدایت کی ہے آئندہ سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کریں گے ،اس اجلاس میں پی ٹی آئی کے موقف کو بھرپور انداز میں رکھا جائے گا،عمران خان نے فیصلہ کیا کہ الیکشن مہم کو روکا نہ جائے بلکہ اس کو جاری رکھیں،صدر پاکستان نے الیکشن کی جوتاریخ دی ہے اس تاریخ کو ہی الیکشن ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بے گناہ کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں، بچوں پر تشدد کیا جارہا ہے ،آئی جی اسلام آباد کو معلوم نہیں کس بنا ء پر تمغہ شجاعت دیا گیا،اگر سیاسی کارکنوں کو پکڑنا اور ان پر تشدد کرنا شجاعت ہے تو اس پر تو بنتا ہے ،مگر ہمارے نزدیک شجاعت کے معنی مختلف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر عمران خان کی سکیورٹی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے ،نگران پنجاب حکومت نے ہمارے خدشات پر تحقیقات کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اصولی طور پر خوش آئند ہے ، یہ اچھا ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داری کو احساس ہو رہا ہے ، اگر وہ تحقیقات کرنا چاہتے ہیں تو مدد فراہم کریں گے ، کمیٹی ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جس پر ہمیں یقین ہو یہ حقیقی طور پر تحقیقات کے لئے بنائی گئی ہے بلکہ الٹے الزامات لگانے کیلئے بنائی گئی ہے ۔

اسد عمر نے کہا تھاکہ اسلام آباد میں کارکنوں پر یہ تشدد ہو رہا ہے اور دباؤ ڈالا جارہاہے کہ وہ یہ بیان دیں۔ اسد عمر کے کہنے پر پولیس پر حملہ ہوا، جس بندے شانی شاہ نے بیان دیا ہے وہ مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی میئر کا قریبی بندہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ 30 اپریل کے بعد نگران حکومتوں کی آئینی حیثیت نہیں بچے گی، آئین میں مقررہ مدت کے بعد نگران حکومت کی کوئی گنجائش نہیں، اس سے آئینی بحران کھڑا ہو جائے گا، نگران حکومت کی مدت کے بعد حکومت چلانے کا طریقہ کار ہی موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ بہت سارے غلط کام ہوئے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ وہ عدلیہ نہیں ہے جو غیر آئینی اقدام ہونے دے گی،نہ پاکستان کے عوام اسے قبول کریں گے ۔ آج پاکستان میں تاریخ کی بد ترین مہنگائی ہے ،ا س وقت سفید پوش کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے ،اس کی عزت نفس ختم ہو گئی ہے ، ہزاروں کاروبار بند ہو گئے ہیں،لاکھوں لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں۔ ا ن حالات میں بھی انہیں یہ فکر ہے کہ عمران خان پر کیسے پرچے کاٹنے ہیں،تحریک انصاف کے لیڈران پر کیسے مقدمات بنانے ہیں،آپ صرف تحریک انصاف سے نہیں پاکستان اور22 کروڑ عوام کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں، آپ اپنی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کر رہے ہیں۔اسد عمر نے کہا کہ جلسے کی تیاریوں کو تیز کر دیا ہے ، پی ٹی آئی سینیٹرز پیر والے دن مشترکہ سیشن میں بھرپور طریقے سے موقف پیش کریں گے ۔فواد چودھری نے کہا کہ یوم پاکستان کے دن آئین کو توڑا گیا، وزیر قانون تو شیطان کے وکیل ہو گئے ہیں، اعظم نذیر تارڑ کو اپنا نام ڈیول ایڈووکیٹ ہی رکھ لینا چاہیے ۔زمان پارک حملہ اور ظل شاہ کو قتل کرنے کے خلاف بھی پرچہ درج کرائیں گے ۔اسد عمر نے کہاکہ عمران خان نے سینیٹرز صاحبان کو ہدایت کی ہے آئندہ سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کریں۔ اس اجلاس میں پی ٹی آئی کے موقف کو بھرپور انداز میں رکھا جائے گا۔ فواد چودھری نے کہا کہ 23مارچ قوم کو آئین توڑ کر تحفہ دیا گیا،آئین کو پامال کر نے پر سپریم کورٹ سے رجوع کر رہے ہیں اور آج جمعہ کے روز پٹیشن دائر کر دی جائے گی، ایک طرف پاکستان کے لئے مایوسی ہوئی ہے دوسری طرف امید کی کرن جاگی ہے ، اندھیرا اتنا ہے کہ سورج نکلنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، عوام مقتدر اعلیٰ ہوں گے ۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا اور اتنے نالائق وزیر قانون اور اٹارنی جنرل ہیں کہ انہوں نے مرضی کی تشریح کر دی،یہ کہہ دیا چار تین سے فیصلہ ہمارے حق میں آیا ہے ، بتائیں دو ججوں کی وہاں روحیں موجود تھیں، انہوں نے فیصلے کے خلاف کوئی نظر ثانی کی درخواست دائر نہیں کی ۔انہوں نے کہا کہ ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہمارے خلاف اقدامات ایجنڈے کا حصہ ہوں گے کہ لیکن ہم تو ایجنڈے میں تھے ہی نہیں یہ سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئے ، پارلیمان کا مشترکہ اجلاس سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کے لئے بلایا گیا، اس سے پہلے سپریم کورٹ پر ایک ہی بار فزیکل حملہ ہوا ہے وہ کرنے والے کون تھے جو اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں،فون کالز ٹیپ کیں کہ اپوزیشن لیڈر کو پانچ سال سے کم سز انہیں ہونی چاہیے ، ایک باہر اسمبلی بحال ہوئی وہ نواز شریف کی اسمبلی تھی، ایک ہی ضمانت قبل ازگرفتاری ملی وہ حمزہ شہباز کو اتوار کے روز گھر بیٹھے ملی تھی، ایک ہی سپیکر کی رولنگ کالعدم ہوئی ہے جس کے نتیجے میں یہ بنی ہے ۔ پانچ ججز نے قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا، الیکشن کے حوالے سے جن ججز نے فیصلہ دیا ان میں سے تین ججز قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے والے بینچ کا حصہ تھے ، انہیں آج چیف جسٹس سے تکلیف ہو گئی ہے باقی ججز سے تکلیف ہو گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج پورے پاکستان کا مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے پانچوں ممبرز پر آرٹیکل 6 کا کیس ہونا چاہیے ، ہمیں پانچ چھ سویلین مل گئے ہیں ان پر عملدرآمد ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہفتے کی رات کو تحریک انصاف کا مینار پاکستان پر جلسہ ہوگا، یہ الیکشن کمیشن کے اقدام کے خلاف ریفرنڈم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنی جان کو لا حق خدشات کو سامنے رکھا ہے ، انہوں نے اپنے اوپر ہونے والے حملے سے پہلے آگاہ کیا تھا، اب وہ پھر اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی سازش بے نقاب کر رہے ہیں، پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی ان معاملات کو دیکھے گی جو خوش آئند پیشرفت ہے ، اگر وہ نوٹس لیتی ہے اور سنجیدہ ہیں تو ہم اپنے خدشات ان کے ساتھ شیئر کریں گے ۔

آئین کو بچانا سپریم کورٹ کا فرض ہے اسی مقصد کیلئے سپریم کورٹ کے ججزہیں،آپ پر بہت دباؤ ہے آپ کو بلیک میل کیا جارہا ہے پوری مہم چلائی گئی ہے ، ججز کو بلیک میل کیا جارہا ہے ، ججز پر دباؤ ڈالا جارہا ہے لیکن سپریم کے ججز تاریخ کے سامنے سرخرو ہوں گے ، کروڑوں لوگ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہم مذاکرات کیلئے تیار ہیں،سول سوسائٹی کے لوگ آئے انہوں نے کہا کہ ہم انتخابات کے لئے اے پی سی کرنا چاہتے ہیں،حکومت کچھ بھی کرنا چاہتی ہے لیکن انتخابات نہیں کرانا چاہتی،اس سے تو جمہوریت اور آئین ختم ہو گیا ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو ان کے کارکن ہی بنیادی سکیورٹی دے رہے ہیں، پنجاب حکومت نے ایس او پیز طے کئے تھے اس میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے امید ہے یہ آگے بڑھے گی ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اس وقت 753کے قریب کارکن جیلوں میں ہیں اور کریک ڈاؤن ابھی بھی جاری ہے ۔ پولیس کے آئی جیز سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے لوگوں کی بد دعائیں لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چھ لوگ آٹے کی قطار میں لگ کر جان دے چکے ہیں، معیشت کا یہ حال ہے ، غریب دیہاڑی دار لوگوں کو جیلوں میں ڈال رہے ہیں،مظلوم کی آہ بڑی جلدی خدا کی ذات تک پہنچتی ہے ، محسن نقوی نے چالیس،پچاس روز کے بعد نہیں رہنا، باقی لوگوں نے بیگز اٹھا کر لندن چلے جانا ہے اس لئے پولیس اور انتظامیہ غریبوں کی آہ نہ لیں آپ کا حساب ہوگا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا نظام پیسوں سے چلتا ہے جب وزیر اعلیٰ کابینہ کی اتھارٹی نہیں رہے گی تو حکومت کے معاملات رک جائیں گے ، اگر غیر آئینی طور پر ایک روپیہ خرچ کرتے ہیں تو اس کی سزا ہو گی، آئینی بحران بہت بڑا ہو جائے گا۔ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ اس سے پہلے معاملات کو دیکھ لے گی، 30 اپریل کے بعد آرٹیکل 6لگے گی،نہ آئین نہ ریاست اورنہ پی ڈی ایم ٹولے کی سیاست بچ رہی ہے ۔ فواد کا کہنا تھا اتنے لائق فائق حکومتی منسٹر ہیں کہ اندر 5 رکنی بینچ سماعت کررہا تھا اور وہ باہر آکر کہتے ہیں کہ فیصلہ 3 اور 4 سے ہمارے حق میں آگیا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ 2 بندے کی روحیں ڈال لی آپ نے ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا گیا۔ آج اسی رولنگ کے خلاف وزیراعظم اقتدار میں بیٹھا۔قبل ازیں عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کے آپشنز پر غور کیا گیا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں