کیا الیکشن کمیشن کے پاس شیڈول تبدیل کرنیکا اختیار ہے؟فریقین راضی نہ ہوں تو ہوا میں فیصلہ نہیں کر سکتے:چیف جسٹس

کیا الیکشن کمیشن کے پاس شیڈول تبدیل کرنیکا اختیار ہے؟فریقین راضی نہ ہوں تو ہوا میں فیصلہ نہیں کر سکتے:چیف جسٹس

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر) سپریم کورٹ نے پنجاب کے الیکشن ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے فریقین سے جواب اور حکومت اور پاکستان تحریک انصاف سے پرامن اور شفاف انتخابات کیلئے یقین دہانی طلب کرلی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا انتہائی افسوناک صورت حال ہے کہ تمام فریقین دست و گریبان ہیں، تحریک انصاف اور حکومت یقین دہانی کرائیں کہ شفاف انتخابات چاہتے ہیں یا نہیں؟ جب تک تمام فریقین راضی نہ ہوں ہم ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندو خیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ۔عدالت نے فریقین سمیت گورنر پنجاب اور گورنر خیبر پختونخواکو بھی بذریعہ متعلقہ چیف سیکرٹری نوٹس جاری کردیا، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ انتخابات ملتوی کرنے کے معاملے میں الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے ، کیا ایسے معاملے میں آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتا ہے ؟

آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کرسکتا، آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا، انتہائی افسوسناک صورت حال ہے کہ تمام فریقین دست و گریبان ہیں، تحریک انصاف اور حکومت یقین دہانی کرائیں کہ شفاف انتخابات چاہتے ہیں یا نہیں؟ جب تک تمام فریقین راضی نہ ہوں ہم ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے ، آئین کی تشریح حکومتیں بنانے یا حکومتیں گرانے کیلئے نہیں ،عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے ہوتی ہے ،قیام امن کیلئے تحریک انصاف نے کیا کردار ادا کیا ہے ؟ الیکشن چاہتے ہیں تو فریقین کو پرامن رہنا ہوگا،یقین دہانی کیسی ہوگی یہ فیصلہ دونوں فریقین خود کریں، عوام کیلئے کیا اچھا ہے کیا نہیں اس حوالے سے فریقین خود جائزہ لیں، انتخابات پرامن، شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں، الیکشن ہمارے گورننس سسٹم کو چلانے کیلئے بہت اہم ہے ، آئین کاآرٹیکل 218 انتخابات کے شفاف ہونے کی بات کرتا ہے اس ضمن میں ہمارے لیڈرز نے اب تک کیا کیا ہے ؟ ہمارے سیاست دان ملک میں استحکام کیلئے کیا کر رہے ہیں؟ یہ بہت پریشان کن صورتحال ہے ، ایک سوچ ہے کہ ملک میں انتخابات اسی وقت ہونے چاہئیں جب امن و امان ہو، انتخابات آزادانہ، شفاف اور بے خوف و خطر ہونے چاہئیں، عدالت سے باہر جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ، تحریک انصاف بھی ملک میں امن و استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرے ، تمام سیاسی جماعتیں ملکی کشیدگی کے خاتمے کیلئے کردار ادا کریں، آئین اور قوانین لوگوں کے تحفظ کیلئے ہیں، ہم حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے ۔

عدالت نے سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے استدعا کی کہ نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی تک کیس کو دو تین دن تاخیر سے مقرر کیا جائے ، اٹارنی جنرل شہزاد عطا الٰہی مستعفی ہوچکے ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ نامزد اٹارنی جنرل مجھ سے ملاقات کرکے گئے ہیں آج نئے اٹارنی جنرل بھی آ جائیں گے ،دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات موخر کرکے آئین اور عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہے الیکشن کمیشن کے پاس صدرکی دی گئی تاریخ بدلنے کا اختیار ہے یا نہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کس عدالتی حکم پرعملدرآمد چاہتے ہیں؟ علی ظفر نے کہا کہ یکم مارچ کے حکم نامے کی بات کر رہا ہوں جس میں 90 دن میں انتخابات کا حکم ہے ۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا یکم مارچ کا حکم عدالتی حکم ہے ؟اس پر تو کچھ ججوں کے دستخط نہیں ۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام پانچ ججز کے دستخط ہیں، ایسا نہیں کہ سپریم کورٹ کے دو فیصلے ہیں، فیصلوں میں اختلافی نوٹ معمول کی بات ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا میرے معزز ساتھی دستخط شدہ عدالتی فیصلے کا حوالہ دینا چاہ رہے ہیں، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن صدر مملکت کی دی گئی تاریخ بدل سکتا ہے ؟ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو بدلا ہے ، ہم نے دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس صدرکی دی گئی تاریخ بدلنے کا اختیار ہے یا نہیں۔قبل ازیں سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار کی طرف سے وکیل علی ظفر پیش ہوئے اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم کرنے کی استدعا کی ،چیف جسٹس نے کہا آپ کے مطابق الیکشن کی تاریخ آگے کرنا درست نہیں ہے ؟ الیکشن کی تاریخ میں توسیع کرنا کیسے غلط ہے آگاہ کریں۔علی ظفر نے بتایا کہ نگران حکومت کا مقصد انتخابات کرانا ہوتا ہے جو 90 روز میں ہونا ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ الیکشن 90 دن سے پانچ ماہ آگے کر دئیے جائیں، الیکشن کمیشن نے آئین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے ،عدالت نے 90 روز سے تجاوز کی صرف انتخابی سرکل پورا کرنے کیلئے اجازت دی تھی، وزارت داخلہ اور دفاع نے سکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی سے انکار کیا، آئین انتظامیہ کے عدم تعاون پر انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کرسکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی، کیا یہ الیکشن کمیشن کے موقف میں تضاد نہیں ؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن شیڈول کب جاری ہوا؟وکیل نے بتایا کہ الیکشن شیڈول 8 مارچ کو جاری کیا گیا ۔

الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں تھا، گورنر خیبر پختونخوا نے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن کی تاریخ نہیں دی، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد 30 اپریل کی تاریخ دی، سپریم کورٹ نے 90 دن کے قریب ترین مدت میں انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم دیا تھا، اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے بعد انتخابات کی تاریخ دیکربھی توہین عدالت کی گئی، الیکشن کمیشن نے آئین کو یا تو تبدیل یا پھر معطل کر دیا ہے ۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عملدرآمد کرائے ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا عدالتی حکم پرعملدرآمد کرانا ہائیکورٹ کا کام ہے ۔علی ظفر نے کہا کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ مان لی تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے ، معاملہ صرف عدالت کے حکم پر عمل کا نہیں، دو صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائیکورٹ نہیں سن سکتی، سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کر چکی ہے ، سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی موجود ہے ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے ، الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو الیکشن کی تاریخ منسوخ کی اور 8 اکتوبرکی نئی تاریخ کا اعلان کر دیا، اگرفنڈز کا جواز تسلیم کر لیا گیا تو ہر حکومت اس بنیاد پر انتخابات نہیں کروائے گی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، سپریم کورٹ نے درخواست گزار کے ابتدائی دلائل سننے کے بعد فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے ۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے تحریری حکم بھی جاری کردیا، جس میں عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کی جانب سے الیکشن ایکٹ کے آرٹیکل57(1) کے تحت دی جانے والی الیکشن کی تاریخ کومنسوخ کر دیا ہے اور الیکشن کمیشن کے پاس ایسا حکم نامی جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ،عدالت نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایسا حکم دیتے ہوئے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے ،عدالت کی جانب سے اس آرٹیکل کی تشریح سپریم کورٹ کے فیصلوں صدارتی ریفرنس نمبر ایک 1988,رشید احمد اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے کیس میں موجود ہے جن میں بعد از اوقات طے پانے والے اقدامات کی درستی کو تحفظ دیا گیا ہے ،آئین کا یہ آرٹیکل کسی ذمہ داری کو انجام دینے سے قبل ہی اس میں تاخیر کی اجازت نہیں دیتا ،درخواست گزار کے وکیل نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن کیلئے 8 اکتوبر کی جو تاریخ دی گئی ہے اس کا کوئی آئینی و قانونی جواز نہیں،ایسے حالات کئی مواقع پر موجود تھے ،ایسے حالات و واقعات 1988 اور 2008 کے الیکشنز کے وقت بھی موجود تھے ،صاف شفاف انتخابات ہمارے جمہوری نظام حکومت کیلئے انتہائی اہم ہیں،عام انتخابات کے انعقاد میں ناکامی، کمی یا کسی قسم کی کوئی کوتاہی ووٹ دینے والے لوگوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کر تا ہے جو کہ بادی النظر میں عوامی حقوق کامعاملہ ہے ،عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کر دئیے اور الیکشن کمیشن کوہدایت کی ہے کہ وہ درخواست گزار کی جانب سے اٹھائے جانے والے قانونی سوالات اور بیان کئے جانے والے نکات پر تیار ہو کر آئے اور عدالت کی معاونت کرے ،مزید سماعت آج ہو گی۔ 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں