پہلے 8 اکتوبر کی تاریخ دی،اب بتائیں انتخابات کب ہونگے؟:چیف جسٹس :9مئی کے بعد حالات کا نئے سرے سے جائزہ لینا ہوگا:وکیل الیکشن کمیشن

پہلے 8 اکتوبر  کی  تاریخ  دی،اب  بتائیں انتخابات کب  ہونگے؟:چیف  جسٹس :9مئی  کے  بعد  حالات  کا  نئے  سرے  سے  جائزہ  لینا  ہوگا:وکیل  الیکشن  کمیشن

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے پنجاب انتخابات نظرثانی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا پہلے 8اکتوبر کی تاریخ دی، اب بتائیں انتخابات کب ہونگے ؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا 9 مئی کے بعد حالات کا نئے سرے سے جائزہ لینا ہوگا۔

 چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سجیل سواتی روسٹرم پر آئے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ تیسرا دن ہے ، الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سن رہے ہیں، دلائل مختصر ہوں، بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کافی وقت ضائع ہوا، ہمیں بتائیے کہ آپ کا اصل نکتہ کیا ہے ،سجیل سواتی نے کہا سپریم کورٹ رولز آئینی اختیارات کو کم نہیں کرسکتے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز عدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں؟ اب تک کے نکتے نوٹ کر چکے ہیں، آپ آگے بڑھیں۔سجیل سواتی نے کہا فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکی ہے کہ نظرثانی کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا، جسٹس منیب اختر نے کہا آپ کی منطق مان لیں تو سپریم کورٹ رولز عملی طور پر کالعدم ہو جائیں گے ۔سجیل سواتی نے کہا بعض اوقات پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار بھی محدود ہے ، توہین عدالت کے کیس میں لارجر بینچ نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں کیا جاسکتا، نظرثانی درخواست دراصل مرکزی کیس کا ہی تسلسل ہوتا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے ، کم ازکم ٹارگٹ کر کے فائر کریں پتا تو چلے کہنا کیا چاہتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے بھی زیادہ بڑا کردیا ہے ، سجیل سواتی نے کہاانتخابات کیلئے نگران حکومت کا ہونا ضروری ہے ، نگران حکومت کی تعیناتی کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے ، نگران حکمرانوں کے اہلخانہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے ، آئین میں انتخابات کی شفافیت کے پیش نظر یہ پابندی لگائی گئی ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اگر صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہو جائے تو کیا ساڑھے 4 سال نگران حکومت ہی رہے گی،سجیل سواتی نے کہا ساڑھے 4 برس نگران حکومت ہی متعلقہ صوبے میں کام کریگی، آئین کے ایک آرٹیکل پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی، آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہے ، انتخابات میں 90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے ،چیف جسٹس نے کہا مداوا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ ساڑھے 4 سال کیلئے نئی منتخب حکومت آسکتی ہے ، آئین میں کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت 6 ماہ اور نگران حکومت ساڑھے 4 برس رہے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا 90 دن کا وقت بھی آئین میں دیا گیا ہے ، نگران حکومت 90 دن میں الیکشن کروانے ہی آتی ہے ، نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے ، الیکشن کمیشن فنڈز اور سکیورٹی کی عدم فراہمی کا بہانہ نہیں کرسکتا، کیا الیکشن کمیشن بااختیار نہیں ہے ؟سجیل سواتی نے کہا اپنے آئینی اختیارات سے نظر نہیں چرا سکتے ۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاآپ بتائیں 90 دن کی نگران حکومت ساڑھے 4 سال کیسے رہ سکتی ہے ،سجیل سواتی نے کہا پنجاب اور خیبرپختونخوا دونوں صوبوں میں ہی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں، جسٹس منیب اختر نے کہا سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا پنجاب انتخابات کا فیصلہ چیلنج ہوا تھا، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اس پر آپ نظر ثانی پر دلائل دے رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں خیبرپختونخوا کی اسمبلی بھی تحلیل ہوئی تھی۔سجیل سواتی نے کہا میرے کہنے کا مطلب تھا خیبرپختونخوا اور پنجاب پورے ملک کا 70 فیصد ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا اگر بلوچستان اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل ہو تو کیا اس پر آئین کا اطلاق نہیں ہوگا، نشستیں جتنی بھی ہوں ہر اسمبلی کی اہمیت برابر ہے ، حکومت جو بھی ہو شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ، کیا الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے کہ منتخب حکومت کے ہوتے ہوئے الیکشن نہیں ہوں گے ۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا الیکشن کمیشن شفاف انتخابات سے معذوری ظاہر نہیں کر سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے ، ہماری تاریخ میں ہم حقوق کی قربانیاں دیتے رہے ہیں، 3 بار دے چکے ہیں اور پھر اس کے نتائج ہوتے ہیں، ضروری ہے کہ عوام الناس کو اپنا فیصلہ بتانے کا موقع ملے ۔ آپ نے 22 مارچ کو صدر کو چٹھی لکھی کہ فنڈز اور سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے 8 اکتوبر کو انتخابات کرائیں گے۔

اب آپ آئینی اور سیاسی نکات اٹھا رہے ہیں، یہ بھی ٹھیک ہے کیونکہ آئین بھی ایک سیاسی دستاویز ہے ، وہ حد کب آئیگی جب آپ کہیں گے کہ اس سے آگے نہیں جا سکتے ، حال ہی میں بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ، ہم نے اخبارات میں پڑھا کہ 60 فیصد لوگوں نے اس میں ووٹ ڈالے اور سکیورٹی حالات کے باوجود ایسا ہوا، اس بات کا ہم نے جشن منایا اور آپ نے بھی، جب آپ تاخیر کریں گے تو منفی قوتیں حرکت میں آجائیں گی، ہم آئین کے محافظ ہیں اور ہمیں ہر صورت اس کا دفاع کرنا ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نگران حکومت صرف اس لیے آتی ہے کہ کسی جماعت کو سرکاری سپورٹ نہ ملے ، کیا نگران حکومت جب تک چاہے رہ سکتی ہے ، سجیل سواتی نے کہا نگران حکومت کی مدت کا تعین حالات کے مطابق ہوگا،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ میں انتخابات سے معذوری ظاہر کی نہ سپریم کورٹ میں، سپریم کورٹ کو بھی کہا کہ وسائل درکار ہیں، اب الیکشن کمیشن کہتا ہے آئین کے اصولوں کے مطابق انتخابات ممکن نہیں ہیں، یہ پہلے کیوں نہیں کہا کہ وسائل ملنے پر بھی انتخابات ممکن نہیں ہیں، سجیل سواتی نے جواب دیا کہ اپنے تحریری موقف میں بھی یہ نکتہ اٹھایا تھا۔چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن نے صدر اور گورنر کو بھی حقائق سے آگاہ نہیں کیا، 2 روز تک آپ مقدمہ دوبارہ سننے پر دلائل دیتے رہے ، ایک دن انتخابات سے آئین کی کون سی شقیں غیر موثر ہوں گی، لیڈر آف ہائوس کو اسمبلی تحلیل کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے ، نظام مضبوط ہو تو شاید تمام انتخابات الگ الگ ممکن ہوں، فی الحال تو اندھیرے میں ہی سفر کر رہے ہیں جس کی کوئی منزل نظر نہیں آرہی۔سجیل سواتی نے کہا سیاسی ماحول کو دیکھ کر ہی 8 اکتوبر کی تاریح دی تھی، 9 مئی کو جو ہوا اس خدشے کا اظہار کر چکے تھے ، جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو 9 مئی پر بات کرنے سے روک دیا اور کہاایسے نہیں ہوسکتا جو آپ کو سوٹ کرے وہ موقف اپنا لیں، کبھی الیکشن کی کوئی تاریخ دیتے ہیں کبھی کوئی تاریخ دیتے ہیں پھر کہتے ہیں ممکن ہی نہیں، ہر موڑ پر الیکشن کمیشن نیا موقف اپنا لیتا ہے ، آپ ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں، ماضی اور آج کے حالات میں فرق ہے ،سجیل سواتی نے کہا موجودہ حالات میں انتخابات ممکن نہیں، اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا آپ پھر آئینی اصولوں سے موجودہ حالات پر آگئے ہیں، کیا پانچوں اسمبلیوں کے الگ الگ انتخابات ہوسکتے ہیں؟سجیل سواتی نے کہا کہ نگران حکومتیں ہوں تو الگ الگ انتخابات ممکن ہیں، موجودہ حالات میں الگ الگ انتخابات ممکن نہیں، پنجاب میں منتخب حکومت آگئی تو قومی اسمبلی کے انتخابات کیسے شفاف ہوں گے ؟ الیکشن کمیشن تمام سرکاری مشینری حکومت سے لیتا ہے ، نیوٹرل انتظامیہ نہیں ہوگی تو شفاف انتخابات کیسے ہوں گے ؟جسٹس منیب اختر نے کہا آپ قومی اسمبلی کا انتخاب متاثر ہونے کی بات کر رہے ہیں، ارکان قومی اسمبلی صوبائی انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں، جس آئینی اصول کی بات آپ کر رہے ہیں اس کے مطابق تو اسمبلی تحلیل ہی نہیں ہونی چاہیے ، اگر قومی اسمبلی پہلے تحلیل ہو جائے تو کیا صوبائی اسمبلی کو الیکشن کمیشن تحلیل کر سکتا ہے ، الیکشن کمیشن کی منطق مان لیں تو ملک میں منتخب وفاقی حکومت نہیں ہو گی۔سجیل سواتی نے کہا کہ ایسی صورت حال میں آرٹیکل 224 حل دیتا ہے ، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 ہر اسمبلی کیلئے ہے صرف وفاق کے لیے نہیں۔سجیل سواتی نے کہا پنجاب میں 20 ضمنی انتخاب ہوئے جو مکمل شفاف تھے۔

چیف جسٹس نے کہا وزیر اعلیٰ پنجاب اور اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے سے عدالت نے حکم دیا تھا، قومی اسمبلی کے انتخاب میں صوبائی حکومت کی مداخلت روکی جا سکتی ہے ، الیکشن کمیشن شفاف اور مضبوط ہو تو مداخلت نہیں ہو سکتی، الیکشن کمیشن نے خود حل نہیں نکالا اب عدالت کو یہ اصول واضح کرنا ہو گا، یہ مسئلہ انتظامی طور پر حل ہو سکتا ہے ، الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ کے بہانے قبول نہیں کرنے چاہیے ، الیکشن کمیشن کو حکومت سے ٹھوس وضاحت لینی چاہیے ، کل ارکان اسمبلی کیلئے 20 ارب کی سپلیمنٹری گرانٹس منظور ہوئیں، الیکشن کمیشن کو بھی 21 ارب ہی درکار تھے ، ارکان اسمبلی کو فنڈ ملنا اچھی بات ہے ، الیکشن کمیشن خود غیر فعال ہے ، الیکشن کمیشن کے استعدادکار میں اضافے کی ضرورت ہے ، الیکشن کمیشن نے 4 لاکھ 50 ہزار سکیورٹی اہلکار مانگے ، ساڑھے 4 لاکھ تو ٹوٹل آپریشنل فوج ہے ، الیکشن کمیشن کو بھی ڈیمانڈ کرتے ہوئے سوچنا چاہیے ، فوج کی سکیورٹی کی ضرورت کیا ہے ؟ فوج صرف سکیورٹی کیلئے علامتی طور پر ہوتی ہے ، فوجی اہلکار آرام سے کسی کو روکے تو لوگ رک جاتے ہیں، جو پولنگ اسٹیشن حساس یا مشکل ترین ہیں وہاں پولنگ موخر ہوسکتی ہے ، ہوم ورک کرکے آئیں، پتا تو چلے کہ الیکشن کمیشن کی مشکل کیا ہے ۔سجیل سواتی نے کہا الیکشن کمیشن مکمل بااختیار ہے ، کارروائی کرسکتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن کو اختیارات استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں، فوج نے الیکشن کمیشن کو کیو آر ایف کی پیشکش کی تھی، میرے خیال سے کیو آر ایف نفری کافی ہے ، آئین کی منشا ہے کہ حکومت منتخب ہی ہونی چاہیے ، بظاہر 8 اکتوبر کی تاریخ صرف قومی اسمبلی کی وجہ سے دی گئی تھی، حکومت جو کہتی ہے الیکشن کمیشن خاموشی سے مان لیتا ہے ۔سجیل سواتی نے کہا سرکاری اداروں کی رپورٹ پر شک کرنے کی وجہ نہیں ہے ، دہشت گردی کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے 8 اکتوبر کی تاریخ دی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کس بنیاد پر کہہ رہے کہ 8 اکتوبر تک سکیورٹی حالات ٹھیک ہو جائیں گے ، یہ موقف 22 مارچ کو تھا، الیکشن کمیشن آج کیا سوچتا ہے انتخابات کب ہوں گے ۔سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ہدایت لے کر آگاہ کر سکتا ہوں، 9 مئی کے واقعات کے بعد حالات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا، چیف جسٹس نے کہا 9 مئی کو غیر معمولی واقعات ہوئے ، 9 مئی کے واقعات کا کچھ کرنا چاہیے ، 9 مئی کا واقعہ انتخابات کیلئے کیسے مسائل پیدا کر رہا ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا 9 مئی کے واقعہ کے چکر میں آپ آئین کی منشا کو بھلا رہے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت پیر 29 مئی تک ملتوی کردی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں