لندن میں ن لیگ کی بڑی بیٹھک،بڑے فیصلے کر پائے گی
(تجزیہ:سلمان غنی) مسلم لیگ ن کی بڑی بیٹھک کا سلسلہ لندن میں جاری ہے جہاں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی پہلے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف ،اپنی بیٹی مریم نواز سے الگ الگ ملاقاتیں ہوئیں اور بعد ازاں پارٹی رہنماؤں سے مشاورتی اجلاس ہوا۔
سوال یہ ہے بڑی بیٹھک بڑے فیصلے کر پائے گی اور کیا ا ب بھی ن لیگ کی لیڈر شپ کیلئے اسلام آباد میں حالات سازگار ہیں۔ لندن اجلاس کے حوا لہ سے آمدہ خبروں میں تو سرفہرست نواز شریف کی وطن واپسی، اس کے سیاسی محاذ پر اثرات اور پاکستان میں ن لیگ کی لیڈر شپ پر نیب مقدمات پر تبادلہ خیال ہوا لیکن واقفان حال مذکورہ مشاورتی اجلاس بارے اہمیت کی حامل شہباز شریف کی لاہور آمد کے فوری بعد ان کی دوبارہ لندن واپسی کو قرار دے رہے ہیں۔ کچھ کے نزدیک شہباز شریف کی لندن ہنگامی بنیادوں پر روانگی کا مقصد کسی خاص شخصیت سے ملاقات اور اس میں دیئے جانے والے خاص پیغام کو قرار دے رہے ہیں بعض کے نزدیک ان کا اچانک لندن روانگی کا مطلب نواز شریف کی وطن واپسی کے حوا لے سے بعض قانونی معاملات ہیں۔بہرحال شہباز شریف کی ہنگامی روانگی غیر معمولی عمل تھا یہ کس حد تک نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالہ سے اہم ہوگا اس کا انحصار آنے والے چند روز پر ہے ۔بعض ماہرین کا کہنا ہے نواز شریف کی لندن سے واپسی کے بعد ان کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کیا یہاں ہضم ہو پائے گا ان کے نزدیک نواز شریف کی وطن واپسی 2018سے بالکل مختلف ہے ۔
وہ 21اکتوبر 2023 کو وطن واپسی کا پروگرام بنا چکے ہیں پاکستان میں ان کیلئے کوئی بڑا چیلنج تو موجود نہیں البتہ انہیں ایسی عدلیہ کے سامنے سرنڈر کرنا پڑے گا جو ماضی کی عدلیہ سے یکسر مختلف ہے اور بظاہر اسٹیبلشمنٹ بھی ان کیلئے کوئی بڑی رکاوٹ کھڑی کرنے کے موڈ میں نہیں لیکن واقفان حال مصر ہیں کہ ن لیگ نواز شریف کی وطن واپسی کا فیصلہ زیرو رسک کی بنیاد پر یقینی بنانا چاہ رہی ہے ۔واپسی پر جیل کے عمل سے بچنے کیلئے حفاظتی ضمانت کا عمل کوئی زیادہ مشکل نہیں تو پھر اس حوالہ سے کنفیوژن کیا ہے جو بار بار لیگی قیادت کو سرجوڑنے پر مجبور کر رہی ہے اور شہباز شریف کو لندن جانا پڑا ۔کچھ ذرائع ان کی واپسی کو سیاسی حالات خصوصاً انتخابات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے نواز شریف کی واپسی کے بعد ان کا بڑا کردار تبھی ممکن بن سکے گا جب انتخابی محاذ پر لیول پلینگ فیلڈ یقینی بنے کیونکہ اس حوالہ سے عالمی دباؤ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ انتخابی عمل تبھی کارگر اور نتیجہ خیز ہوگا جب تمام جماعتوں کو سازگار فضا میسر آئے گی اور یہ اسی صورت میں ممکن بن سکتا ہے جب نوازشریف کے ساتھ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو بھی سازگار فضا ملے لیکن کیا یہ ممکن بن پائے گا۔نواز شریف کی واپسی کے ساتھ ن لیگ میں پھر سے یہ سوال کھڑا ہوگا کہ بیانیہ نواز شریف کا چلے گا یا پھر حکومت کے حصول کیلئے حکمت عملی کارگر ہوگی جس پر شہباز شریف قائم رہے ۔ فی الحال تو ن لیگ کیلئے بڑا چیلنج نواز شریف کی واپسی اور بڑا استقبال ہے ۔سیاسی اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھنے والے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں نواز شریف کی واپسی مشروط ہوگی ن لیگ کی قیادت تو ان کے پاس ہوگی لیکن وزارت عظمیٰ کیلئے وہ خود امیدوار نہیں ہوں گے ۔اس حوالہ سے یہی کہا جا سکتا ہے نواز شریف اگر وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہ بھی ہوئے تو پھر بھی امیدوار نامزد کرنے کا اختیار ان کے پاس ہوگا۔