انتخابی شیڈول کے بعد لیول پلیئنگ فیلڈ کے امکانات واضح
(تجزیہ:سلمان غنی) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے دورہ نیو یارک اور لندن کے دوران انٹرویوز اور ملاقاتوں میں ان کے اس بیان کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے جس میں وہ انتخابات میں تمام جماعتوں کی شرکت بارے یکسوئی کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں کہ کسی کو الیکشن سے نہیں روکیں گے البتہ 9 مئی واقعات میں توڑ پھوڑ کے مرتکب عناصر کے خلاف کارروائی ہوگی۔
بیرونی محاذ پر نگران وزیراعظم کی جانب سے مسلسل انتخابات بارے اعلانات نگران حکومت کی اس حوالہ سے یکسوئی اور سنجیدگی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن نو مئی کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملہ کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی پر مضر ہیں ۔ ایسے ہی موقف کا اظہار خود الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی کیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی اور کسی کو انتخابی عمل سے نہیں روکا جائے گا جہاں تک الیکشن کے انعقاد کا تعلق ہے تو الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے حوالہ سے جنوری کے آخری ہفتہ کا اعلان کر کے آدھا کام کر چکا البتہ حتمی تاریخ اور شیڈول کا اعلان باقی ہے۔
اس امر پر بہت سی جماعتوں نے تو انتخابات کے انعقاد بارے اطمینان ظاہر کر دیا ہے البتہ پیپلز پارٹی انتخابات کی تاریخ دینے کے اعلان پر مضر ہے تحریک انصاف نے جنوری کے آخری ماہ میں انتخابی اعلان کو آئینی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا جنوری کے آخری ہفتہ کی تاریخ آئینی مدت سے باہر ہوگی جس کا کوئی جواز نہیں البتہ پی ٹی آئی اب بھی سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہی ہے جہاں نوے روز میں انتخابات کا معاملہ زیر سماعت ہے جہاں تک خود الیکشن میں پی ٹی آئی کے کردار کا تعلق ہے تو بلاشبہ نو مئی کے واقعات نے پی ٹی آئی اور اس کی لیڈر شپ کیلئے شدید مشکلات پیدا کر رکھی ہیں ،پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو سزا اور مقدمات کا سامنا ہے ایسے میں انتخابات میں یہ جماعت کس طرح انتخابی محاذ پر اپنا کردار ادا کر پائے گی اس حوالہ سے سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ اس صورتحال میں بڑا سوال یہی ہے کہ پھر اس موقف کا کیا جواز ہے کہ سب جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی ،ہوسکتا ہے پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع مل جائے ۔
البتہ ماہرین کا کہنا ہے انتخابات میں برابری کے مواقع تب ہی مل سکتے ہیں جب تحریک انصاف کے لیڈر ان کے کیس میرٹ پر سنے جائیں لیکن اگر ان کی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا تو اس سے معاملات کنٹرول میں رہ سکتے ہیں اور کسی حد تک لیول پلیئنگ فیلڈ کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور خود یہ امر تحریک انصاف کی لیڈر شپ کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ 2018 کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کی قیادت نواز شریف کو عدالتی طور پر نااہل قرار دلوانے میں خود ان کا بھی کردار تھا لیکن نواز شریف نے اسے اپنی ذات اور انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا تھا اور مسلم لیگ ن مشکل حالات اور مقدمات کی بھرمار کے باوجود بھی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری تھی لہٰذا آج تحریک انصاف بھی کچھ ایسی کیفیت سے دوچار ہے ا ور ان کی لیڈر شپ جیل میں ہونے کے باوجود جماعت موجود ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں حصہ لینے پر نہ صرف یہ کہ کوئی قدغن نہیں ہونی چاہئے بلکہ انہیں اس حوالہ سے سازگار فضا ملنی چاہئے۔
جہاں تک نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا یہ کہنا کہ پی ٹی آئی کے بغیر بھی انتخابات آزادانہ اور شفاف ہو سکتے ہیں تو یہ موقف کسی طرح بھی حقیقت پسندانہ نہیں اور ایک بڑی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر کر کے یا بڑی جماعت از خود انتخابی عمل سے با ہر ہو کر یہاں انتخابات منصفانہ نہیں ہو سکتے ، البتہ جہاں تک خود تحریک انصاف کی جانب سے اختیار کئے جانے والے اس موقف کا سوال ہے کہ وہ ملک کی بڑی جماعت اور اسے عوام کی تائید حاصل ہے تو اس کا انتخابات کے نتائج سے ہی پتہ چلتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے ویسے تو 2018کے انتخابی نتائج کا ریکارڈ موجود ہے جب ماضی کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو عدالتی اور سیاسی محاذ پر سخت مشکلات درپیش تھیں اور تحریک انصاف کو بہت سی قوتوں کی آشیرباد بھی حاصل تھی تو ان انتخابات کے نتائج میں بھی وہ مرکز اور پنجاب میں سادہ اکثریت حاصل نہ کر پائی تھی، ہر لیڈر اپنی تقریر میں یہی موقف اختیار کرتا نظر آتا ہے کہ اسے پاکستان کے عوام کی تائید و حمایت حاصل ہے لیکن کیا عملاً ایسے ہی ہے یہ پتہ انتخابات میں ہی چلے گا۔