جعلی انجکشن: بینائی سے متاثرہ افراد کی تعداد 68 تک جاپہنچی، کوئی ملزم گرفتار نہ ہوسکا

لاہور(اپنے سٹاف رپورٹر سے، مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں)لاہور اور قصور کے بعد ملتان اور صادق آباد میں آنکھوں کے جعلی انجکشن سے بینائی سے کئی افراد متاثر ہوئے پولیس نے ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ذرائع ڈرگ کنٹرولر آفس کے مطابق بینائی متاثر ہونے کے اب تک 68 مریض سامنے آئے ہیں، سب سے زیادہ متاثرہ مریض ملتان میں سامنے آئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں متاثرہ مریض سامنے آئے وہاں ملزم نوید انجکشن سپلائی کرتا تھا۔ڈرگ کنٹرولر آفس کے مطابق اصل انجکشن بنانے والی کمپنی کے 2 ڈسٹری بیوٹرز کو بھی مزید فروخت سے روک دیاگیا ہے ۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں غیر قانونی مینوفیکچرنگ یونٹ سیل کردیا گیا۔ادھر مقامی کمپنی کے تیار کردہ اویسٹن انجکشن نجی ہسپتال کی فارمیسی میں تیار ہونے کا انکشاف ہوا ہے ۔ایف آئی آر کے مطابق محکمہ صحت نے نجی ہسپتال کے تیسرے فلور کا کینسر کیئر سینٹر سیل کر دیا ، محکمہ صحت کے چھاپے میں انجکشن کی تیاری میں ملوث نوید نامی شخص فرار ہوگیا، ملزم نوید انجکشن مختلف آئی کلینکس کو سپلائی کرتا تھا۔ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ محکمہ صحت نے 2 ملزموں نوید عبداللہ اور بلال رشید کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔نگران وفاقی وزیر صحت ندیم جان کا کہنا ہے کہ آنکھوں کو متاثر کرنے والی ساری دوائی مارکیٹ سے اٹھالی گئی ۔وزیر صحت پنجاب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر صحت ندیم جان کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا آنکھوں کو متاثر کرنے والی دوا کے پورے بیچ کو مارکیٹ سے اٹھا لیا گیا اور اس دوا کو مارکیٹ میں فروخت کی اجازت نہیں۔
ندیم جان نے بتایا کہ آنکھوں کو متاثر کرنے والی دوا فروخت کرنے والے دو سپلائرز کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے ۔ان کا کہنا تھا اس بات کی بھی تحقیقات کی جائے گی کہ کیا ماضی میں اس دوا سے کوئی متاثر ہوا ہے ، تحقیقات شفاف طریقے سے ہو گی اور اسے عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔وفاقی وزیر صحت کا کہنا تھا دوا سے متاثر ہونے والے مریضوں کا مداوا بھی کیا جائے گا اور متاثرین کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔دوسری جانب نگران وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر پنجاب ڈاکٹر جمال ناصر کا کہنا ہے کہ جعلی انجیکشن کا سیمپل ٹیسٹ کرانے کیلئے محکمہ صحت پنجاب کی لیب بھجوایا ہے ، ٹیسٹ رپورٹ فوری طور پر نہیں ملتی اس میں 2 سے 3 روز درکار ہوتے ہیں۔ڈاکٹر جمال ناصر کا کہنا تھا محکمہ صحت پنجاب کے پاس 20 متاثرہ افراد کے نام آئے ہیں، یہ دوا کافی عرصے سے استعمال ہورہی تھی اور اس پر منافع کی شرح زیادہ ہے ، یہ انجکشن ملٹی نیشنل کمپنی بناتی ہے جسے اچھی ساکھ والی کمپنی تقسیم کرتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 100 ملی گرام کے اس انجکشن میں سے مریض کو1.2 ملی گرام کا ڈوز درکار ہوتا ہے ، یہ بڑے ظالم لوگ ہیں جو ایک ایک انجکشن پر ایک ایک لاکھ روپے کما رہے تھے ۔تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ دوا ناقص تھی یا ڈاکٹرز سے غلطی ہوئی۔نگران وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق ملتان، صادق آباد میں بھی بینائی متاثر ہونے کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔دوسری جانب نگران وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جمال ناصر کا کہنا ہے کہ لاہور ، قصور ، ملتان اور صادق آباد میں الگ الگ ڈیلرز جعلی انجکشن فروخت کر رہے تھے ۔نگران وزیر صحت کے مطابق پنجاب کے مختلف شہروں میں جعلی انجکشنز کی فروخت کا کاروبار کرنے والوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں، جعلی انجکشنز بیچنے والے نیٹ ورک کا کوئی کارندہ ابھی گرفتار نہیں کیا جاسکا۔وزارت صحت پنجاب نے جعلی انجکشنز بنانے والوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی درخواست دے دی ہے۔
ڈاکٹر ناصر جمال کا بتانا ہے کہ جعلی انجکشنز سے متاثر ہونے والے افراد کی فہرستیں بھی تیارکر رہے ہیں۔دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے انکوائری رپورٹ آنے تک انجکشن کی فروخت روکنے اور سٹاک مارکیٹ سے اٹھانے کا حکم دے دیا۔محسن نقوی نے کہاکہ پنجاب حکومت متاثرہ افراد کو فری علاج معالجہ فراہم کرے گی۔ وزیراعلیٰ محسن نقوی نے جن شہروں میں مریضوں کی بینائی متاثر ہوئی ہے وہاں کے ڈرگ انسپکٹرز کے خلاف غفلت برتنے پر کارروائی اورپنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کو متعلقہ کلینکس کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے ۔وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ ہر سطح پر آشوب چشم کی وباء کے سدباب کے لئے اقدامات یقینی بنائے جائیں اور ہسپتالوں میں علاج کے لئے تربیت یافتہ ڈاکٹر کی موجودگی یقینی بنائی جائے ۔ نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت وزیراعلیٰ آفس میں اہم اجلاس ہوا، جس میں آنکھ کے انجکشن سے بعض افراد کی بینائی متاثر ہونے کے واقعہ پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیاکہ بینائی متاثرہ ہونے کے زیادہ کیسز لاہور، ملتان،رحیم یار خان، خانیوال، قصور اور بہاولپور میں ہوئے ۔ انجکشن تیار کرنے والے ایریا کو کسی محکمہ یا اتھارٹی نے رجسٹرڈ نہیں کیا تھا۔انجکشن تیار کرنے والے افراد نے سمگل شدہ یا نان سٹریلائزڈ ایریا استعمال کیا جو انفیکشن کاباعث بنا۔
لاہور میں انجکشن بنانے والے دونوں افراد کو تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا۔نجی ہسپتال کے تیسرے فلور سے انجکشن بنانے والا یونٹ سیل کردیا مگر بد قسمتی سے نوید اور بلال چھاپہ مار ٹیم کی نظروں سے بچ نکلے جس کے بعد ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی کا آغاز کردیا گیا ،ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے رولز کے مطابق کسی بھی میڈیسن کی ڈسپینسنگ کرنے کے لیے ایریا کی رجسٹریشن ضروری ہے مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا اور نان رجسٹرڈ طریقہ سے انجکشن کو تیار کیا جارہا تھا جو پنجاب ڈرگ کنٹرول نے سر بمہر کردیا ۔دوسری جانب پنجاب حکومت کی قائم تحقیقاتی کمیٹی کا پہلا اجلاس اتوار کے روز پروفیسر اسد اسلم کی سربراہی میں ہوا جس میں اویسٹن انجیکشن بارے مکمل طور پر بریفنگ دی گئی۔اجلاس میں بتایا گیا کہ آنکھوں کے لیے 1.2 ملی گرام خوراک استعمال کی جاتی ہے ۔
انجکشن کی مارکیٹ میں قیمت 28 ہزار سے 40 ہزار روپے ہے ۔ایک انجیکشن میں سے 83 خوراکیں نکالی جارہی تھی۔ہر خوراک کی قیمت 1500 سے 2000 روپے رکھی گئی تھی۔ ڈوز ڈسپینسنگ کرنے کی وجہ آنکھوں کے لیے الگ خوراک سے کم آمدن والے افراد کی پہنچ تک انجکشن کو لایا گیا۔ ہر مریض کو ضرورت کے مطابق خوارکیں لگائی جاتی تھیں۔ کئی مریضوں کو بیشتر بار انجکشن لگانا پڑتا ہے ۔ اجلاس میں کمیٹی نے معاملے کی مزید تحقیقات کے لیے دیگر اضلاع سے رابطوں کا فیصلہ کیا ہے ۔ایک سے زیادہ تحقیقاتی ٹیمز دیگر اضلاع میں جا کر ہسپتال اور مریضوں کے انٹرویو کریں گی جس سے مریضوں اور وینڈرز کی تعداد کا اندازہ ہوسکے گا۔لاہور کے علاوہ ادویات بنانے والے دیگر وینڈرز کی تلاش شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے اور اس حوالے سے پنجاب کے مختلف اضلاع کے ڈرگ انسپکٹرز کو ٹاسک سونپ دئیے گئے ہیں۔
لاہور(سجاد کاظمی سے )دنیا بھر میں اویسٹن انجکشن کو اندھے پن کا موجب سمجھا جاتا ہے ۔لاہور سمیت پنجاب میں عرصہ دراز سے یہ انجکشن استعمال ہونے کے باوجود صرف چند دن سے انفیکشن کا ذریعہبنا ہوا ہے ۔طبعی ذرائع کے مطابق انجکشن کو چھوٹے محلول میں بدلنے میں سٹریلائزڈ ایریا استعمال نہیں ہوا یا لالچ میں آکر کمپنی سے انجکشن خریدنے کی بجائے سمگل شدہ انجکشن استعمال کیا گیا جوزائد المعیاد ہوسکتا ہے ۔اویسٹن انجکشن کینسرکیخلاف استعمال ہوتا ہے جو انمول اور شوکت خانم جیسے انسٹیٹیوٹ بھی استعمال کرتے ہیں۔ روش کمپنی کا یہ انجکشن 500ایم جی اور 100ایم جی میں امپورٹ ہوتا ہے ،بعدازاں اسے فی مریض استعمال کے لیے بکنگ کرکے 0.05ایم ایل سرنج میں بھر کر فروخت کیا جاتا ہے اور اس انجکشن کا محلول بننے کے بعد اسے 6گھنٹوں میں استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔
شوکت خانم بھی یہ محلول بنا کر فروخت کرتا ہے ، لاہور میں 2 ٹیکنیشن انجکشن بنا کر فروخت کرتے ہیں جنہیں تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ ڈرگ کنٹرول پنجاب نے ویئر ہاؤس ، جہاں یہ انجکشن فروخت کیا جاتا ہے اس کو سربمہر کردیا ہے ۔ اویسٹن انجکشن کینسر کے علاوہ خاص طور پر شوگر کے مریضوں کے لیے آنکھوں کے پردے کی لیکیج روکنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔عالمی سطح پر 13سال قبل اویسٹن انجکشن کوبلائنڈ انجکشن کے نام سے پکارا گیا تھا۔پنجاب بھر کے اضلاع میں 20سے 25افراد کے نابینا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ،پنجاب میں اویسٹن کا متبادلPatizra انجکشن بھی اویسٹن کی طرح قیمتی انجکشن ہے ،لاہور میں ایک مریض کی خوراک 0.05پوائنٹ 12سو روپے میں دستیاب ہوتی ہے ۔پروفیسر اسد اسلم کا کہنا ہے متاثرہ مریض کی بینائی واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں ،دنیا کے بہت سے ممالک میں اویسٹن انجکشن کا استعمال ہورہا ہے اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ۔