فوجی تنصیبات پر حملے کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہئے:نگران وزیراعظم

فوجی تنصیبات پر حملے کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہئے:نگران وزیراعظم

اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک)نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ 9مئی کو جو ہوا سیاسی عمل ہرگز نہیں تھا،فوجی تنصیبات پر حملے کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہئے ،چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں محفوظ ، انکو زہر دینے کا بیان ان کے کسی ساتھی کا خیال ہو سکتاہے ، نگران حکومتیں کریمنل گروہ نہیں،الزامات سے پہلے 10 بارسوچیں۔

ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا میرا مقصد تھا کہ افغانستان میں نمائندہ ، منتخب قائم ہو گی ، اس وقت کی موجودہ افغان حکومت کو بین الا قوامی قبولیت حاصل نہیں ، افغان حکومت بارے میرا بیان میڈیا پر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ، پاکستان اور افغان حکومت کو اپنے اپنے ڈومین میں سوچنا چاہیے ، یہ بات انہیں سوچنی چاہیے کہ اس جانب سے اگر لوگ یہاں آئیں گے اور دہشتگردی میں ملوث پائے جائیں گے تو ٹالرنس نہیں ہو گی ، ہماری مختلف چینلز کے ذریعے ان سے کمیونیکیشن ہوتی ہے ، وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کہاں موجود ہے ، دو سال قبل مذاکرات کا جو ڈھونگ رچا یا گیاتھا ، وہ کہاں تھے ،سینٹرل ایشیا میں تو موجود نہیں تھے ، افغانستان کی سر زمین سے ہی گفت وشنید چل رہی تھی ، وہ باقاعدگی سے ان مذاکرات کا حصہ تھے ، بہت ساری چیزیں ہیں جنکا ان کو بھی پتا ہے اور ہمیں بھی پتا ہے ، یہ انہوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ انہیں پاکستان کے حوالے کرنا چاہتے ہیں یا ان کے خلاف کارروائی خو دکرنا چاہتے ہیں ، وہ بے حسی سے بیٹھے ہوں ، اور دہشتگرد پاکستان کے شہریوں اورسکیورٹی فورسز پر حملہ آور ہوں گے تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا ، ایسا نہیں ہو سکتا ہم اس کو برداشت کرتے رہیں ، جب بھی آرمی چیف کے ساتھ بات ہوئی میں نے انہیں اس میں بہت نرم پایا کہ ایک بھی شہری کی جان میرے لیے بہت قیمتی ہے ، ان کی حفاظت ہمار ی قانونی ، آئینی ، اخلاقی ذمہ داری ہے۔

ان کاکہنا تھا مختلف علما ئے کرام کے ساتھ آرمی چیف کی ملاقات ہوئی ہے ، پاکستان کے ایک ایک انچ کے لیے بھی قربانی کے لیے تیار ہیں ، تما م مکتبہ فکر کے علما ئے کرام نے حکومت کے اقدامات کو سراہا ہے ، ہم کہتے تھے امریکا اور طالبان کے درمیاں مذاکرات ہونے چاہئیں ، ہم سمجھتے تھے کہ نیٹو اور امریکن فورسز نے بالآ خر گھر جانا ہے ، ہمارا یہی گھر ہے جنہوں نے گھر جانا ہے اور یہاں رہنا ہے ، بات چیت ہونی چاہیے ، ہم مذاکرات سے انکار نہیں کر رہے ، اگر وہ ریاست کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں سب سے پہلے غیر مشروط ہتھیار پھینکیں ، پھر فیصلہ ہو گا کہ کس سطح کے مذاکرات کیے جائیں ، یہ غلط فہمی دور کر لی جائے کہ بندوق کی نوک پر ریاست کو مذاکرات کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے ، لوگوں کو واپس بھیجنا کافی مشکل فیصلہ ہو تا ہے ، بعض اوقات مشکل فیصلے بھی کرنا ہوتے ہیں ، وزیر اعظم نے کہا ہماری کسی بھی رجسٹرڈ افغان مہاجر کو واپس بھیجنے کی پالیسی نہیں ہے ، غیر قانونی افراد کو واپس بھیجنے کی پالیسی اختیار کی ہے ، ہم نے افغانوں کے ساتھ بہتر رویہ اختیار کیا ، ہم کہہ رہے ہیں آپ عزت کے ساتھ اپنے ملک جائیں ، پالیسی یہ ہے کہ اگر آپ غیر قانونی مقیم ہیں تو پہلے واپس جائیں ،وہاں سے پاسپورٹ جاری کروائیں ، پھر مشن سے اجازت لیں ، یہاں آ کر قانونی انٹر ایکٹ کریں کس نے روکا ہے ۔ ہم عالمی امیگریشن کا نظام یہاں بھی چاہتے ہیں ، پاسپورٹ بنا لینے والوں کے لیے بھی میکانزم بنا رہے ہیں ، نادرا کو ٹاسک دے دیا گیا ہے ،ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے ، یہ بات درست ہے ، چین سے ہوائی ، زمینی اور فضائی روابط کو بڑھانے کی پالیسی پر جا رہے ہیں، پاکستان بھی اس کا حصہ ہے ، چین چاہتا ہے کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے لیے پلاننگ تیز ہو ، چیلنجز ہیں ان کو تسلیم بھی کرنا ہو گا اور اس کا حل بھی نکالناہو گا ، ڈائیلاگ ایک ٹول ہے ، اور یوز آف فورس دوسرا ، ریاست نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس نے کس وقت کیا فیصلہ لینا ہے ، یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہوتا ہے کسی کی خواہش پر یا کسی کے کہنے پر اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔

ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ کیا نگران حکومت نے سابق وزیر اعظم کو جیل میں ڈالا ، نگران حکومت کے آنے سے پہلے سابق وزیر اعظم کی گرفتاری 9 مئی کے واقعہ پر ہوئی ،قانونی طور پر ان کی گرفتاری ہوئی ، وہ ان تمام الزامات کا سامنا کر رہے ہیں ، ہاں ہم ایک شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے انہیں تمام الزامات سے بری کر دیتے ، یہ ہم قانونی طور پر نہیں کر سکتے ، چیئر مین پی ٹی آئی جسمانی طور پر جیل میں بالکل محفوظ ہیں ، ان کو زہر دینے کا بیان اگر ان کے کسی ساتھی کا ہے تو یہ ان کا خیال ہو سکتا ہے ، یہ نگران حکومتیں کوئی کریمنل گروہ نہیں ، الزامات لگانے سے پہلے 10 مرتبہ سوچیں ، کسی کی جان لینا قتل کے زمرے میں آتا ہے ، یہ الزام ایک سنجیدہ الزام ہے ان کے ساتھیوں کو اس پر بہت احتیاط برتنی چاہیے ، ان کا تحفظ ہماری قانونی ذمہ داری ہے ، ہاں قانون اگر انہیں سزا دیتا ہے تو وہ قانونی پیرائے کے اندر رہتے ہوئے انہیں دی جا ئے گی ، کسی نے ذاتی بد لہ تو نہیں لینا، ملک میں تمام سیاسی پارٹیا ں اپنا اپنا کام کر رہی ہیں پی ٹی آئی بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے ، چیئر مین کے وفادار عہدے دار اپنے اپنے علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ، اپنے ووٹر کے سامنے خود کو وکٹم ظاہر کرنا کسی بھی سیاسی مصلحت کا حصہ ہو سکتا ہے ، ہو سکتا ہے کہ پی پی پی بھی اسے استعمال کر رہی ہو میں اسے سنجیدہ نہیں لیتا ، سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کا دفاع کرنا ہمارا ریاست کے ساتھ وفا دار ہوناثابت کرتا ہے ، ریاست کے آئین ، قوانین کے ساتھ ، جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ریاست کے مفاد کے مطابق نہیں تو اپیل کرنا ہمارا فرض بنتا ہے ، اس کیس میں ہم نے ایسا ہی کیا ، ریاست کی کوئی طاقت بھی اگر ریاستی اداروں پر حملہ آور ہوتی ہے تو میری نظر میں ا سے ملٹری کورٹ کا لازمی سامنا کر نا ہی چاہیے ، ٹی ٹی پی والے بھی فوجی انسٹالیشن اور اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ سیاسی رویے کے تحت آپ پلے کارڈ اٹھا سکتے ہیں ، آپ پتھر پھینک سکتے ہیں ، آپ فزیکلی ان پر حملہ آور ہو سکتے ہیں، یہ آگے بڑھ کر خود کش حملہ آور بھی بن جاتے ہیں ، ٹارگٹ بھی کرتے ہیں ، ریاست کی انسٹالیشن پر حملہ آور ہو کر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ بغیر دیکھے گزر جائے گا ، میرے خیال میں یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہیے ۔ 9 مئی کو سیاسی عمل ہرگز نہیں تھا ، وہ جلائو ،گھیرائو ، توڑ پھوڑ کے زمرے میں تھا ، جو سوشل انٹیور کو چیلنج کر تا تھا جو گارنٹر ہوتا ہے ، انارکی سے بچانے کے لیے ریاست کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ، ہو سکتا ہے یہ ارادتاً ہوا ہو ، یہ رویہ بالکل درست نہیں کہ ان لوگوں کو ملٹری قوانین کا سامنا نہیں کرنا چاہیے ، ٹی ٹی پی بھی اسی قسم کا بیان رکھتی ہے کہ پاکستان نے ہمارے ساتھ اس قسم کا رویہ برتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کے ساتھ دوستی کر لی ، مسلمان بھائیوں کے خلاف چلا گیا ، لہذا ہم ان کے بچے اے پی ایس میں ماریں گے ، اسی قسم کے جواز وہ بھی پیش کرتے ہیں ۔

پی ٹی آئی کے دور میں خر کمڑ کے علاقے میں ایک واقعہ ہوا ، اس واقعہ پر پی ٹی آئی نے کوئی احتجاج نہیں کیا ، نہ کہا کہ ہم اس کے مخالف ہیں، انہوں نے کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ، اگر آپ احتجاج کرتے ہوئے چوکی کی طرف جائیں گے تو وہ گولی چلائیں گے ۔ابھی بھی فوج نے بہت برداشت کا مظاہرہ کیا ہے ، ورنہ اگر اس جانب سے گولی چلتی تو درست اقدام ہوتا ، ملٹری ٹریننگ یہی ہوتی ہے کہ اگر کوئی آپ کی جانب اس طرح آ رہا ہے تو اسے حملہ تصور کیا جائے ، یہ بنیادی ٹریننگ ہے ، الیکشن ایک ایسی چیز ہے کہ 1970 کے الیکشن کو چھوڑ کر پاکستان میں کوئی ایسا الیکشن نہیں ہے ، جس کو سازش کی جانب نہ دھکیلا گیا ہو ، اس نقطہ پر اے پی سی بلانا مجھ سے بھی ہضم نہیں ہو رہا ، ہماری ترجیح ہے کہ جلد از جلد الیکشن ہوں ، ہم چاہتے ہیں عوام اپنا مینڈیٹ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو مینڈیٹ دیں ، ہم چاہتے ہیں ، ایک الیکٹڈ حکومت آئے اور اپنی ذمے داریاں سنبھا لے ، ہم نے ایسا کون سا کام کیا کہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہم کسی فریق سے متعلق جانب دار ہیں۔تما م چیز یں جمہوری نظام سے جڑی ہوئی ہیں ۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو جیل میں زہر دینے کا الزام غیر ذمہ دارانہ ہے ، انہیں نگران حکومت نے گرفتار کیا اور نہ شاہی فرمان کے ذریعے ان کو رہا کر سکتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں مکمل محفوظ اور ہماری ذمہ داری ہیں، تمام جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، ہماری ترجیح ہے کہ جلد از جلد الیکشن ہوں۔وزیراعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے الزام کو سنجیدہ نہیں لیتے ۔ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام ووٹرز کو متوجہ کرنے کا حربہ ہے ،انکا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، ہماری ترجیح ہے کہ جلد از جلد الیکشن ہوں، ہم چاہتے ہیں عوام اپنا مینڈیٹ استعمال کرکے لوگوں کو مینڈیٹ دیں، ہم چاہتے ہیں ایک منتخب حکومت آئے اور اپنی ذمہ داریاں سنبھالے ۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہم نے ایسا کون سا کام کیا ہے جس سے متعلق تاثر دیا جا رہا ہے ہم کسی فریق سے متعلق جانبدار ہیں،انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ یہاں کوئی اذیت پسند لوگ نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے ذاتی بدلہ لینا ہے ۔ دیگر جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، پی ٹی آئی لیڈر بھی اپنے علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے آپ کو ووٹر کے سامنے مظلوم قرار دینا کسی بھی جماعت کا بیانیہ ہو سکتا ہے ۔ ہو سکتا ہے پیپلز پارٹی بھی اپنے ووٹرز کے لیے اس قسم کی گفتگو کرے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں