مہنگائی میں جلد مزید کمی،ٹیکس وصولی میں30فیصد اضافہ،آئی ایم ایف کے سوا کوئی پلان بی نہیں:وزیرخزانہ،اقتصادی سروے جاری

مہنگائی میں جلد مزید کمی،ٹیکس وصولی میں30فیصد اضافہ،آئی ایم ایف کے سوا کوئی پلان بی نہیں:وزیرخزانہ،اقتصادی سروے جاری

اسلا م آباد(نامہ نگار،نیوز رپورٹر،دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی سال 24-2023 کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف)کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا۔

کیونکہ ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا اور آج اسی معاہدے کی وجہ سے ہم اس پوزیشن میں موجود ہیں کہ اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کررہے ہیں،ملک خیرات سے نہیں ٹیکسوں سے چلتے ہیں،کوئی مقدس گائے نہیں ، معیشت کیلئے ہر ایک کو حصہ ڈالنا ہوگا، مہنگائی میں جلد مزید کمی آئے گی، آنیوالے مہینوں سالوں میں شرح سود سنگل ڈیجٹ پر آ جائیگی، پہلی مرتبہ ٹیکس وصولی میں 30فیصد کا بے مثال اضافہ ہوا ہے ، سروے میں بتایا گیا کہ رواں سال فی کس آمدنی میں 129 ڈالر کا اضافہ ہوا اور یہ گزشتہ مالی سال کے 1551 ڈالر کے مقابلے میں 1680 ڈالر پر پہنچ گئی ہے ۔وزیرخزانہ اورنگزیب نے وزیر مملکت علی پرویز ملک ودیگر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا گزشتہ مالی سال کے اختتام پر جی ڈی پی کی شرح 0.2 فیصد تھی، روپے کی قدر میں 29 فیصد کی کمی ہوئی تھی جبکہ ہمارے پاس صرف دو ہفتوں کا امپورٹ کور تھا، اب 9ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر موجود ہیں جو کہ دو ماہ کی درآمدات کیلئے کافی ہیں، انہوں نے کہا بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی بنیادی وجہ بلند شرح سود اور توانائی کی عدم مساوات تھی تاہم زراعت کے شعبہ نے نمایاں ترقی کی اور ہم نے بمپر فصلیں حاصل کیں، ڈیری اور لائیو سٹاک کے شعبہ میں بھی نمایاں نمو ہوئی ہے ، زراعت اب بھی ہمارا اہم ہدف ہے ۔

زراعت کے شعبے میں ترقی کی شرح نمو 6.25 فیصد رہی، زرعی شعبے میں اچھی کارکردگی کی وجہ سے اقتصادی شرح نمو میں اضافہ ہوا، زراعت کے شعبے میں یہ گزشتہ 19 سال کے دوران سب سے زیادہ ترقی ہے ، انہوں نے کہا کہ مالیاتی سطح پر بھی مثبت پیشرفت ہوئی ہے ، ایف بی آر کی محصولات کی وصولی کی شرح میں 30 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، پرائمری سرپلس میں صوبوں کا بھی اچھا کردار رہا جس کا کریڈٹ صوبوں کو ملنا چاہئے ۔انہوں نے کہاکہ جاری مالی سال کے آغاز پر ہمارا اندازہ تھا کہ جاری کھاتے کا خسارہ 6 ارب ڈالر کے قریب رہے گا تاہم سال کے اختتام پر یہ 20کروڑ ڈالر کے لگ بھگ ہو گا جو ایک بڑی کامیابی ہے ، رواں مالی سال کے دوران چند مہینے ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ 3 فیصد سرپلس میں بھی رہا ہے ، کرنسی میں استحکام آیا ہے اس کی بڑی وجوہات میں نگران حکومت کے انتظامی اقدامات ہیں، نگران انتظامیہ نے ہنڈی حوالہ اور اسمگلنگ کو روکا اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا جائزہ لیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ مہنگائی میں بھی بتدریج کمی آ رہی ہے ، گذشتہ سال کے اختتام پر افراط زر کی شرح 38 فیصد تھی جو اب 11.8 فیصد کی سطح پر آ گئی ہے ، بنیادی اور خوراک کی مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی ہے ، پالیسی ریٹ میں بھی کمی کر دی گئی ہے ، ہمیں توقع ہے کہ جو زری سہولت شروع ہوئی ہے اس سے افراط زر میں کمی اور معیشت پر مثبت اثرات ہوں گے ، ہمیں یہ بھی توقع ہے کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں پالیسی ریٹ سنگل ڈیجٹ پر آ جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کے استحکام کیلئے اقدامات سے مارکیٹ پر اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں ، سٹاک مارکیٹ میں بیرونی خریدار آ رہے ہیں، یہ وہ اشارے ہیں جس سے کلی معیشت کے استحکام کی عکاسی ہو رہی ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری بات چیت پیداواری اور تعمیری رہی، پاکستان نے سٹینڈ بائے معاہدے کا 9 ماہ کا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا، اس دوران پاکستان نے جس نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اس سے ملک کو فائدہ ہوا ہے ، حکومت اصلاحات کے عمل میں سنجیدہ ہے ، ہمیں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کو بڑھانا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانا ہیں، توانائی اور سرکاری ملکیتی کاروباری اداروں کو بہتر بنانا بھی ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سٹرٹیجک ایس او ایز کو رکھا جا سکتا ہے ، آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری بات چیت اب بھی جاری ہے اور اس حوالے سے مثبت پیشرفت کی توقع ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اصلاحات اور معاشی استحکام کے حوالے سے دو اہم پہلو ہیں، پہلا پہلو یہ ہے کہ جہاں پر پالیسی ہے وہاں اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ، دوسرا یہ کہ ایف بی آر میں لیکیجز کو بند کیا جائے ، ٹریک اینڈ ٹریس نظام کو مؤثر بنایا جائے ، ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن پر کام ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے ، ملکی معاملات کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، خیرات سے فلاحی ادارے تو چل سکتے ہیں ملک نہیں چل سکتا، ملک ٹیکسوں سے چلتا ہے ، اس وقت بجلی کے شعبہ میں سالانہ 500 ارب روپے کی چوری کا تخمینہ ہے ، ڈسکوز کے کارپوریٹ گورننس کو بہتر کیا جا رہا ہے ، ڈسکوز کو نجی شعبہ کی طرف لے کر جا رہے ہیں، ایک بات بہت واضح ہے کہ ڈسکوز سرکاری شعبہ میں نہیں رہ سکتے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ زراعت پاکستان کی معیشت کا بدستور اہم ستون ہو گا، زراعت اور آئی ٹی دو ایسے شعبے ہیں جن کا آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ، ان شعبوں پر توجہ دے کر اور پیداوار میں اضافہ کے ذریعے ہم شرح نمو کو بڑھا سکتے ہیں، زراعت اور آئی ٹی کے شعبہ جات کو قرضوں کی فراہمی کیلئے گورنر سٹیٹ بینک کے ساتھ ہم رابطہ میں ہیں، زراعت میں مڈل مین کے کردار کو کم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، حکومت پنجاب نے اس حوالے سے اقدامات شروع کئے ہیں، باقی صوبوں کے ساتھ بھی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھیں گے ، گندم کی امدادی قیمت کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے کہا امدادی قیمت کے چکر سے نکلنا ہوگا، پاسکو کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لانے جارہے ہیں ۔

اس موقع پر وزیر مملکت برائے اقتصادی امور علی پرویز ملک نے کہا معیشت میں استحکام اور جو اعتماد نظر آ رہا ہے یہ ان اقدامات کا نتیجہ ہے جو وزیراعظم شہباز شریف نے لئے ہیں، ہماری پوری توجہ معاشی استحکام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ معیشت دوبارہ کمزوری کی طرف نہ جائے ، اس حوالہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ نظام کو آگے لے کر جانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے واضح ہدایات جاری کی ہیں کہ معاشی طور پر کمزور طبقات پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے ، حکومت معیشت کو دستاویزی بنا رہی ہے ، نان فائلرز کو فائلرز بنانے کیلئے اقدامات ہو رہے ہیں، تمام پاکستانیوں کو اپنی آمدنی اور حیثیت کے مطابق پاکستان کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، ہمیں ڈھانچہ جاتی فالٹ لائن کو درست کرنا ہے ، پاکستان کے پاس بجلی کی استعداد بہت زیادہ ہے مگر نقصانات کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے تاکہ گردشی قرضہ نہ بڑھے ۔ بجلی چوری کے خاتمہ کیلئے صوبوں کے ساتھ بھی ہماری بات چیت جاری ہے ، ہمیں بجلی کے شعبہ کی بیماری کا احساس ہے اور بہت جلد اچھی خبریں آنا شروع ہو جائیں گی۔ مجھے احساس ہے کہ کیپیسٹی پیمنٹ بہت بڑا بوجھ ہے جس کی وجہ سے ہم بجلی کی قیمتوں میں وہ ریلیف نہیں دے سکتے جو معیشت اور صنعت کو چلانے کیلئے درکار بنیادی چیز ہے اور اسی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ اور باقی چیزوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے ، جب ہم اصلاحات اور نمو کی طرف جائیں گے تو یہ مسئلہ حل ہونا شروع ہو جائے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم کا حالیہ دورہ چین پاک چین اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلہ کیلئے تھا، سکیورٹی کے واقعات کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا ہے ، چین کی حکومت کی جانب سے وزیراعظم کے دورہ چین کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا جبکہ کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالہ سے صورتحال تسلی بخش ہے ، آئندہ مالی سال کیلئے ادائیگیوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، آنے والے سال میں پاکستان بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹس میں جائے گا، پاکستان چین کی کیپٹل مارکیٹس سے بھی استفادہ کرے گا اور مالی سال 25۔2024ء میں پانڈا بانڈ جاری کئے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام کو مؤثر بنایا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے نجکاری کے حوالہ سے بہترین کام کیا، پی آئی اے اور اسلام آباد ایئرپورٹ کی آئوٹ سورسنگ کی بولی آ چکی ہے ، لاہور اور کراچی ایئرپورٹ کو بھی آئوٹ سورس کیا جائے گا۔ پی آئی اے کی نجکاری اگست،ستمبرتک مکمل ہونے کی توقع ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ وفاق کو صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے ، ہماری چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ کے ساتھ بہترین ملاقاتیں رہی ہیں اور ہم مشاورت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مالی خسارہ کو کم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، ہم ایک ٹریلین سے زیادہ کا خسارہ برداشت نہیں کر سکتے ۔ نئے مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں انتہائی اہمیت کے منصوبوں کو شامل کیا جا رہا ہے ، فنڈز کے بغیر کسی بھی منصوبے کو پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں کریں گے ۔اقتصادی سروے کے اعداد وشمار کے مطابق مالی سال2023-2024 میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ 2.38 فیصد، ملکی کرنٹ اکائونٹ خسارہ 0.2 فیصد ، برآمدات 25.7 فیصد ، درآمدات 43.4 فیصد ،تجارتی خسارہ 17.7 ، زرمبادلہ 23.8 فیصد ، بیرون سرمایہ کاری 1.5 فیصد رہی ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں