عدلیہ پر بلاول بھٹو کی سخت الفاظ میں تنقید غیر معمولی عمل
(تجزیہ:سلمان غنی) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں عدلیہ کو ٹارگٹ کرنے اور اس کی جانب سے بار بار پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت کے الزام کو اداروں کے درمیان طاری نفسیاتی کیفیت میں غیر معمولی عمل کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
اور کہا جا رہا ہے ایک ایسے وقت میں جب ایوان کے اندر سعودی عرب جیسے دوست ملک کے ذمہ دار سفیر اور مسجد نبویؐ کے امام موجود تھے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی جانب سے ریاست کے اہم ادارے عدلیہ پر تنقید اور ملک میں نفرت کی سیاست سمیت دیگر ایشوز پر سخت الفاظ میں تنقید کا کوئی جواز نہ تھا اور اس سے خود بلاول کے قد کاٹھ اور سیاسی کردار میں اضافہ نہیں ہوا لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ طویل عرصہ بعد بلاول نے ایوان میں آ کر عدلیہ کو ٹارگٹ کیا اور ان کی جانب سے سیاسی بحران کا ذمہ دار ٹھہرانے کی بات کی کیا ان کے اس طرزعمل سے عدالتی فیصلوں کے خلاف پارلیمان کا کردار نتیجہ خیز بن سکے گا اور ایک حکومتی اتحادی ہونے کی حیثیت سے انہوں نے حالات کا جس انداز میں تجزیہ پیش کیا وہ ضروری تھا۔بلاشبہ اس وقت ادارہ جاتی بحران کی کیفیت موجود ہے اور اس میں بڑا کردار 12جولائی کے مخصوص نشستوں کے عدالتی فیصلہ سے پیدا ہوا ہے ۔حکومت اور اس کے اتحادیوں کا موقف ہے جب ایک جماعت عدالت میں گئی ہی نہیں اور اس نے انتخاب میں حصہ نہیں لیا تو پھر اسے نشستیں دینے کا کیا جواز تھا یہی وجہ ہے حکومت اور اتحادیوں نے آئینی ترمیم کے آپشن کو بروئے کار لا کر فیصلہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور اب یہ باقاعدہ ایکٹ بن چکا ہے ۔ تحریک انصاف اسے دوبارہ سے عدلیہ میں چیلنج کر چکی ہے ۔آنے والے حالات میں خصوصی نشستوں کا ایشو بڑے ایشو کے طور پر موجود رہے گا اور اس کے اثرات سیاسی محاذ پر شدید ہوں گے ۔ ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مذکورہ صورتحال کو بڑے آئینی بحران سے تشبیہ دیتے ہوئے سسٹم کیلئے خطرناک قرار دے رہے ہیں جن کے مطابق پہلی دفعہ مقتدرہ اور عدلیہ کے درمیان تناؤ کی کیفیت ہے اور دلچسپ امر یہ ہے اس مرتبہ حکومت اور مقتدرہ صف بندی میں ا یک طرف اور عدلیہ دوسری جانب کھڑی ہے اور حکومت اور اس کے اتحادی عدالتی فیصلوں پر کھلے طور پر تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں۔
بلاول کا زور زیادہ تر اس بات پر تھا کہ ایک ادارہ با ر بار پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے ۔کچھ واقفان حال بلاول کی عدلیہ پر تنقید کو پیپلز پارٹی کے بعض ذمہ داروں کے خلاف مقدمات میں عدالتی ریلیف نہ ملنے کو بھی قرار دے رہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکومت اور اتحادی کسی بھی قیمت پر خصوصی نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے خلاف ہیں بظاہر اس کا فائدہ تو حکومت اور اتحادیوں کا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض قوتیں کسی بھی قیمت پر ملک میں جاری بندوبست کو کمزور ہوتا نہیں دیکھنا چاہتیں یہی وجہ ہے سیاسی جماعتیں ایک سیاسی جماعت کے کردار پر اثر انداز ہونے کیلئے وہ آپشن بروئے کار لا رہی ہیں جو ممکن ہو اور وہ نہیں چاہتیں کہ ایوان کے اندر صف بندی میں ایسی کوئی کیفیت طاری ہو جو مستقبل میں ان کیلئے خطرناک ہو سکے ۔ جہاں تک بلاول کا یہ کہنا ہے کہ سیاسی کارکن بنگلہ دیش کے حالات کی طرف دیکھ رہے ہیں تو یہ خود سسٹم کے حوالہ سے اچھا نہیں البتہ ان کا یہ اعتراف حقیقت پسندانہ ہے کہ ملک میں نفرت کی سیاست عروج پر ہے ۔