مدت ملازمت میں توسیع قبول نہیں کرونگا، ججز کے خط کا معاملہ کمیٹی نے مقرر کرنا ہے: چیف جسٹس
اسلام آباد(حسیب ریاض ملک)چیف جسٹس فائر عیسیٰ نے کہا ہے ہر جج کا رجحان ہوتا ہے، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا،اب توخود مجھے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے، اب کسی کی قسمت کیس کہاں لگتا ہے، میں توسیع نہیں لوں گا۔۔۔
رانا ثنااللہ صاحب کو میرے سامنے لے آئیں ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، جسٹس منصور علی شاہ صاحب اور اٹارنی جنرل موجود تھے، اس میٹنگ میں رانا ثنا اللہ موجود نہیں تھے، بتایا گیا تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں میں نے کہا باقیوں کی کر دیں میں صرف اپنے لئے قبول نہیں کروں گا مجھے تو یہ نہیں پتاکہ کل میں زندہ رہوں گا بھی یا نہیں، چھ ججز کے خط کا معاملہ کمیٹی نے مقرر کرنا ہے ،جسٹس مسرت ہلالی طبیعت کی ناسازی کے باعث نہیں آرہی تھیں اس وجہ سے بینچ نہیں بن پا رہا تھا،چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب اور صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا سب سے پہلا کام بطور چیف جسٹس فل کورٹ بلانا ہی کیا تھا، اس سے پہلے 4 سال تک ہم سب ججز ایسے ملے ہی نہیں تھے ، اس میٹنگ میں فیصلہ کیا تھا مفاد عامہ کے مقدمات براہ راست نشرہوں گے ، عام طور پر عوام وہی دیکھتے سمجھتے تھے جو کوئی ٹی وی چلائے ، ہم نے فیصلہ کیا کہ عوام خود ہماری کارکردگی دیکھیں، عوام خود دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں ہم میں شفافیت ہے یا نہیں، پہلا مقدمہ جو براہ راست دکھایا گیا وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا، اس فیصلے کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لے کر 3 ججز کو سونپے گئے ، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہوگا، اتنا تعین ہو ہی جاتا ہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا تو پراسیکیوشن کو وزن دیں گے یا نہیں،اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں کون سے ججز کیس سنیں گے ، کیا اب کیس لگنے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا؟
اگر نہیں پتہ چلتا فیصلہ کیا ہوگا اسکا مطلب ہے شفافیت آئی ہے ، پہلے چیف جسٹس کاز لسٹ کی منظوری دیتے تھے کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار چیف جسٹس کا تھا اب یہ اختیار ختم کردیا گیا ہے ،رجسٹرار کا کام ہے مقدمات سماعت کیلئے مقرر کرنااب کاز لسٹ چیف جسٹس کے پاس نہیں آتی، چیف جسٹس کو 3 ہزار سی سی مرسڈیز بینز کی ضرورت نہیں تھی، لاہور رجسٹری میں کھڑی بلٹ پروف لینڈ کروزر بھی حکومت کو واپس بھیجی گئی، حکومت کو کہا ان گاڑیوں کو بیچ کر عوام کیلئے بسیں خریدے ، سپریم کورٹ میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے تمام افراد کو واپس بھیجا گیا ہے ،ڈیپوٹیشن پر آنے والے 3 سال سے زیادہ کسی جگہ تعینات نہیں رہ سکتے ، جن کی مدت مکمل ہوچکی تھی انہیں واپس بھیجا گیا ہے ، ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی وجہ سے سپریم کورٹ ملازمین کی ترقی رک جاتی تھی، ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی واپسی سے سپریم کورٹ کے 146 ملازمین کی ترقی ہوئی،78 نئی تعیناتیاں ہوئیں، اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں خالی أسامیوں کو بھی فِل کیا گیا، عوام چاہتے ہیں ان کے مقدمات جلد نمٹائے جائیں اور ان کا پیسہ بچ سکے ، پرانے صحافی کہتے چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا، اب مقدمات چیف جسٹس نہیں لگاتا کمیٹی لگاتی ہے ،بینچز بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا نہیں رہا، تبصرے حقیقت کی بنیاد پر کریں مفروضوں پر نہیں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ سچ آگے پہنچائیں، یہ بات میں بطور جج نہیں کہہ رہا، اگر کوئی قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہو تو اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے ، دوسروں کا احتساب کریں اور عدلیہ اپنا احتساب نہ کرے تو فیصلوں کی اہمیت نہیں رہتی، سپریم کورٹ کے ایک جج پر الزام لگا، کھلی عدالت میں کیس چلایا گیا،تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے جج کو بدانتظامی پر برطرف کیا گیا،مارگلہ ہلز نیشنل پارک کیس کا فیصلہ کیا، چیف جسٹس ہاؤس میں مور رکھے ہوئے تھے چیف جسٹس کا موروں سے کیا تعلق؟ موروں کو رہا کروا کر کلر کہار بھیجا، کہتے ہیں جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟ موروں کو جنگلوں میں ہی ناچنا چاہیے ،کیس مینجمنٹ کمیٹی بنائی جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل تھے ،جسٹس منصور علی شاہ نے کیس مینجمنٹ کے حوالے سے اپنی رپورٹ دیدی ہے ، جسٹس منیب اختر کی رپورٹ ابھی تک موصول نہیں ہوئی،سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد مکمل کرکے ایڈہاک ججز کو تعینات کیا گیا، صرف پلاننگ سے کیسز کم نہیں ہوتے عدالت میں بیٹھ کر مقدمات سننے ہوتے ہیں،سپریم کورٹ میں تاریخیں دینے کا رواج ختم ہوچکا ہے ، ایڈہاک ججز نے چھٹیوں کے دوران 245 کیسز نمٹائے ہیں، شہید ذوالفقار علی بھٹو کا قتل عدالتی فیصلے سے ہوا، ہم نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا کیس سنا، یہ کیس شروع میں چلا تھا پھر 10سال تک نہیں چلا، ہم نے کیس سنا اور فیصلہ ہوا کہ کیس کو غیر منصفانہ طرز پر نہیں چلایا گیا، یہ ہماری رائے تھی، اس عدالت نے اعتراف کیا،ایک اسلام آباد کے جج کو غلط طریقے سے برطرف بھی کیا گیا تھا، ہم انہیں بحال نہیں کرسکے لیکن ہم نے فیصلہ کیا اور ان کو نکالے گئے جج نہیں بلکہ ریٹائرڈ جج لکھنے کا حکم دیا۔
آئین میں ایک شق ہے لیکن سمجھی جاتی ہے کہ اس پر عمل نہیں ہوا، ہم نے آرٹیکل 6کی شق پر عمل کرکے دکھایا،آئین شکن مشرف کو قصور وار ٹھہرایا،ہم غلطی مان لیتے ہیں مگر کچھ لوگ نہیں مانتے ،لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ رہتا تو فروری میں الیکشن نہ ہوپاتا ہم نے وہ ہٹایا۔ آئندہ نئے عدالتی سال میں بھی جہاں سے اچھی آرا ملیں اس پر عمل کریں،اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا نئے عدالتی سال کی تقریب ماضی سے سبق سیکھنے کا بھی ایک موقع ہوتا ہے ،گزشتہ سال بھی کہا تھا جوڈیشل سسٹم میں اہم ترین وہ عام سائلین ہیں جو انصاف کیلئے رجوع کرتے ہیں، سائلین کی امیدیں ٹوٹنے کی ذمے داری نظام انصاف سے منسلک ہم تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے ،مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے زیادہ سائلین کو کوئی اور چیز ناامید نہیں کرتی، فوجداری مقدمات میں لوگوں کی آزادی اور زندگیاں داؤ پر لگی ہوتی ہیں، کئی مرتبہ ملزموں اور مجرموں کے مقدمات کی باری آنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں، بے گناہ کا دہائیوں تک جیل میں رہ کر رہا ہونا کسی سانحے سے کم نہیں ہوتا، ہمیں اپنے سول نظام انصاف میں تاخیر کا بھی ازالہ کرنا چاہیے ، زیرالتوا مقدمات 56ہزار سے بڑھ کر60ہزار سے زائد ہوگئے ، زیرالتوا میں سالانہ اضافے روکنے اورکم کرنے کیلئے منظم طریقہ کاراختیار کریں۔
سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلے میں قیدیوں کے حالات کی بہترین عکاسی کی گئی۔وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل فاروق ایچ نائیک نے کہا آرٹیکل 184/3 کے سکوپ اور استعمال کے اثرات پر کافی سوالات اٹھے ، سیاسی مقدمات میں توہین عدالت کا اختیار استعمال ہونے پر بحث نے طول پکڑا، بحث شروع ہوئی کہ جوڈیشل اتھارٹی اور اظہار رائے کی آزادی کے درمیان توازن قائم ہونا چاہیے ، نئے عدالتی سال پر عدلیہ کے اندرونی چیلنجز کو بھی دیکھنا ہو گا، نظام انصاف کی طاقت کا انحصار ججوں کے معیار پر ہے ،قابل ترین ججز کو عدلیہ میں لانے کا پراسیس اپنانا ہو گا، میرٹ کی بنیاد پر ججوں کی بھرتی کیلئے سخت طریقہ کار اپنانا ہو گا، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان عدالتی اختیار نہیں رکھتا، پارلیمانی کمیٹی کا جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کے برعکس کوئی فیصلہ عدلیہ میں مداخلت نہیں سمجھا جانا چاہیے ، ماضی میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی میں ہم آہنگی رہی، منیر بھٹی کیس کے فیصلے نے پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات محدود کیے ، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان سمجھتے ہیں یہ فیصلہ ان کے اختیارات پر‘انکروچمنٹ‘ ہے ، منیر بھٹی فیصلے پر سپریم کورٹ کو نظرثانی کی ضرورت ہے ، سوموٹو اختیارات کے استعمال کا طریقے کار وضع کرنے کی ضرورت ہے ، تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے طریقے کار بہتر بنایا جا سکتا ہے ، سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کی ضرورت ہے۔