کالج میں زیادتی کا ثبوت نہ کوئی عینی شاہد:خصوصی کمیٹی کی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش

کالج میں زیادتی کا ثبوت نہ کوئی عینی شاہد:خصوصی کمیٹی کی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش

لاہور (سیاسی رپورٹر ،کرائم رپورٹر، دنیانیوز) لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے معاملے پر بنائی گئی خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کو پیش کردی۔

رپورٹ کے مطابق کالج میں لڑکی سے زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی مبینہ زیادتی کا کوئی عینی شاہد ملا ۔ کمیٹی نے 28 کے قریب طلبا اور طالبات کے انٹرویوز کئے جس میں طلبا اور طالبات نے بیان میں ادھر اُدھر سے سننے کا بتایا جبکہ آئی سی یو میں رہنے والی لڑکی سے بھی تفصیلی بات کی گئی ، 2 اکتوبر کو زخمی ہونے والی لڑکی کو گھر میں گرنے سے چوٹ آئی۔ذرائع کے مطابق کمیٹی نے ہنگامہ آرائی اور افواہ پھیلانے والوں کے ٹرائل خصوصی عدالت میں کرنے کی سفارش کی ہے اور سائبر کرائم کے جانچ پڑتال کا ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں بنانے کی بھی سفارش کی ہے ۔ رپورٹ چیف سیکرٹری پنجاب ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، سیکرٹری داخلہ ،سیکرٹری ہائر ایجوکیشن اورسیکرٹری سپیشل ایجوکیشن نے مرتب کی، 9 صفحات پر مشتمل رپورٹ پر چیف سیکرٹری پنجاب سمیت تمام افسروں کے دستخط موجود ہیں۔رپورٹ کیلئے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران، اے ایس پی گلبرگ شاہ رخ خان، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر شاہد وحید ،ایم ایس جنرل ہسپتال ڈاکٹر فریاد حسین اور ڈی ایم ایس ڈاکٹر وقاص یاسین ، ایور کیئر ہسپتال کے کرنل ریٹائرڈ صابر حسین بھٹی اور اتفاق ہسپتال کے واصف کے بیانات ریکارڈ کئے گئے ۔

کمیٹی نے جنرل ہسپتال کے عملے سے جنسی زیادتی سے متعلق آنے والے مریضوں سے متعلق بھی تفتیش کی ۔طلبا وطالبات نے اپنے بیانا ت میں ادھر ادھر سے سنا اور پوسٹ کیا کی باتیں کیں ۔رپورٹ کے مطابق کالج میں لڑکی سے زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا، نہ ہی مبینہ زیادتی کا کوئی عینی شاہد ملا ہے ۔کالج انتظامیہ نے اس معاملے سے نمٹنے میں لا پرواہی برتی۔آئی سی یو میں رہنے والی لڑکی سے بھی تفصیلی بات کی گئی، لڑکی مبینہ واقعہ کے دن سکول سے چھٹی پر تھی۔رپورٹ میں بتایاگیاکہ لڑکی اور اس کے والدین ایسے کسی بھی واقعہ سے انکاری ہیں،لڑکی سے کمیٹی نے اس کے گھر پر ملاقات کی،فوٹیج پولیس کے پاس موجود ہیں ،اس فوٹیج میں واقعہ کے شواہد موجود نہیں۔انتظامیہ نے لڑکیوں کے احتجاج پر ان کو جبری روکنے کی کوشش کی جس سے معاملہ بگڑگیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالب علموں کو اپنے معاملات مثبت انداز میں لینے کی ضرورت ہے ،طالب علموں کو منفی اور مثبت سرگرمیوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے ،طالب علموں کو فیک نیوز فلٹر کرنے میں رہنمائی دینے کی ضرورت ہے ،والدین اپنے بچوں کا استحصال نہ ہونے دیں،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار میں اضافے کی ضرورت ہے ۔

کمیٹی نے سوشل میڈیا پر مبینہ واقعہ پر نفرت انگیز معاملے کی مزید تفتیش کی سفارش کر دی اور رپورٹ میں کہا ہے کہ انفلوئنسرز اور نام نہاد وی لاگرز کو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے سے روکنے کی ضرورت ہے ۔فیک نیوز پھیلانے کیلئے جعلی سوشل میڈیا پوسٹس استعمال کئے گئے ،فیک نیوز کے ذریعے معصوم طالب علموں کو نشانہ بنایا گیا،اس واقعہ سے فیک نیوز کے ذریعے اشتعال پھیلانا بھی ثابت ہوتا ہے ،حکومت کو متاثرہ خاندان کی عزت کی بحالی کیلئے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔سوشل میڈیا پر نجی کالج کی طالبہ سے زیادتی کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلانے کے حوالے سے محکمہ داخلہ کی طرف سے بنائی گئی جے آئی ٹی کا پہلا اجلاس انویسٹی گیشن ہیڈ کوارٹر قلعہ گجر سنگھ میں گزشتہ روز ہوا ۔ اجلاس میں سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں شیئر کرنے والوں کا ریکارڈ اکٹھاکرنے کا فیصلہ ہوا۔ ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا پر جھوٹی ویڈیو اور پوسٹیں پھیلانے والوں کے اکاؤنٹ کا ڈیٹا بھی حاصل کیا جائے گا۔ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تھانہ ڈیفنس اے میں درج مقدمے کی تفتیش کر رہی ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں