سیاسی افق پر نیا سٹیج تیار،طاقت کے اعتراف سے آگے بڑھناممکن
تجزیہ:سلمان غنی سیاسی محاذ پر بڑھتے تناؤ اور ٹکراؤ کی فضا نے ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑا رکھی ہے جس پر سب سوالیہ نظروں سے یہ پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ آخر یہ تماشا کب تک ہمارا مقدر بنا رہے گا۔
اس حوالے سے دو آرا نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی تعطل پیدا ہونے پر دوطرفہ مذاکرات کا راستہ کھولنا ہی جمہوریت کی علامت ہوتا ہے اور قومی سیاست میں باہم مل جل کر ہی سیاسی مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش ہوتی رہی ہے ،پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے لیڈر کی رہائی سمیت 30 نکات کیلئے احتجاج کی کال بارے ان کا موقف یہی ہے کہ وہ پرامن طور پر اپنے اس حق کا استعمال کریں گے لیکن 9مئی کے پرتشدد واقعات قومی اور قومی املاک پر حملوں اور گھیراؤ جلاؤ کے بعد انتظامی مشنری اور حکومتی ادارے الرٹ نظر آ رہے ہیں ،موجودہ حالات سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ سیاسی افق پر نیا سٹیج تیار ہو چکا ہے اور دیکھنا یہ ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ،پنجاب کے سیاسی محاذ پر پراسرار خاموشی طاری ہے کہا جا رہا ہے کہ اراکین اسمبلی اور سیاسی کارکن گرفتاریوں کے خوف سے یا تو اسلام آباد راولپنڈی پہنچ چکے ہیں اور یا زیر زمین چلے گئے ہیں پی ٹی آئی کو اس صورتحال کا ادراک تھا لہٰذا اس نے سارا فوکس پختونخواپر رکھا ۔
وزیراعلیٰ گنڈاپور بارے یہی کہا جا رہا ہے کہ وہ احتجاج کی عملاً قیادت کریں گے لیکن بڑا سوال ہے کہ کیا احتجاج صرف پختونخوا تک ہے ، پنجاب باہر نہ نکلا تو کیامقاصد پورے ہو پائیں گے ؟ماہرین کا کہنا ہے کہ جب حکومتیں کسی احتجاجی تحریک سے نمٹنے کیلئے گرفتاریوں کیلئے کریک ڈاؤن شروع کر دے اور احتجاج کیلئے کال پر عملدرآمد کیلئے قافلوں کو روکنے کیلئے رکاوٹیں کھڑی کرناشروع کر دے تو سمجھیں کہ اپوزیشن کا احتجاج کارگر بن گیا ہے ،اسلام آباد سمیت چند شہروں میں بھی کارکن اور عہدے دار سڑکوں پر نکل آئے اور انتظامیہ نے مذکورہ احتجاج پر اثر انداز ہونے کیلئے طاقت اور قوت کا استعمال شروع کر دیا تو پھر مظاہرین کی حاضری غیر متعلق بن جائے گی اور احتجاجی عمل غالب آ جائے گا ،بلاشبہ ڈیڈ لاک کے براہ راست اثرات ملک پر ہو رہے ہیں لہٰذا ملک کی فکر کی جائے اور ایک دوسرے کو ہٹانے اور گرانے کا سلسلہ بند کیا جائے بہتر یہی ہے کہ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعہ معاملات سلجھانے کی کوشش کی جائے ایک دوسرے کی طاقت کا اعتراف کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے دونوں کی سلامتی کا راستہ یہی ہے ۔