ایک دہائی سے جاری احتجاج نے ملک میں استحکام نہیں آنے دیا

ایک دہائی سے جاری احتجاج نے  ملک میں استحکام نہیں آنے دیا

(تجزیہ:سلمان غنی) ملک میں جاری احتجاجی فضا اور عمل میں کس کو فتح حاصل ہوئی اور کس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اس سے قطع نظر نظر یہ آ رہا ہے کہ اس تناؤ ٹکراؤ اور محاذ آرائی کا عمل براہ راست ملکی معیشت اور کاروبار پر اثر انداز ہو رہا ہے اور ایک ایسے وقت میں جب حکومت کا دعویٰ یہ ہے۔

 کہ معاشی اشاریئے بہتر ہو رہے ہیں تو پھر یہ احتجاجی فضا کیوں اور اگر ایک جماعت احتجاج پر مصرہے تو کیا حکومت اور اہل سیاست میں کسی کے پاس اتنی اہلیت نہیں کہ وہ جلتی پر پانی ڈال سکے ،ڈیڈ لاک کو ڈائیلاگ میں تبدیل کر سکے اور مایوسی اور بے چینی کی کیفیت میں کوئی امید اور آس پیدا کر سکے اور یہی وہ المیہ ہے جس کے اثرات معاشرے کے عام شعبہ جات میں نظر آ رہے ہیں اور بڑا سوال یہ کھڑا ہے کہ اس احتجاجی مارچ کے بعد اگر متاثرہ جماعت پھر سے احتجاج کی نئی کال دے دے تو پھر کیا ملک چل پائے گا معیشت کی بحالی کے عمل پر پیش رفت ہوگی ۔ پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ ایک دہائی سے جاری احتجاج کے رجحان نے ملک میں استحکام نہیں آنے دیا حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں مگر تناؤ اور ٹکراؤ کی کیفیت قائم ہے کسی کو اس حوالہ سے فائدہ ہوا یا نقصان قطع نظر اس بات کے اس کے مضر اثرات پاکستانی معیشت پر ہوئے ہیں اور معیشت کی بدحالی نے پاکستان کو آگے جانے سے روک رکھا ہے آئے روز کے سیاسی احتجاج دھرنوں اور مارچوں کے عمل نے معاشی نظام کو مفلوج کر رکھا ہے۔

خاص طور پر اسلام آباد پنجاب اور پختونخوا شدید متاثر نظر آ رہے ہیں ،معاملات زندگی متاثر ہو رہے ہیں ۔اس صورتحال میں کیا حکومت اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کر پا رہی ہے ،بڑا سوال یہی ہے کیونکہ حکومت کے پاس گنوانے کیلئے بہت کچھ ہوتا ہے اور پھر تاریخ میں اسے جوابدہ بھی بننا پڑتا ہے جبکہ اپوزیشن کا کام حکومت کو دباؤ میں لا کر اپنے مطالبات منوانا ہوتا ہے اور اس کیلئے وہ ممکنہ آپشن استعمال کرتی نظر آتی ہے اور پاکستان میں یہی کچھ نظر آ رہا ہے ،احتجاج کے اس عمل پر اثر انداز ہونے کیلئے کنٹینروں کے کھڑے پہاڑ بذات خود سوالیہ نشان بنے کھڑے ہیں یہ سلسلہ آخر کب تک رہے گا ،کب تک راستے بلاک رہیں گے ، فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام نہیں ہوگا تو ملک کیسے چلے گا ۔لوگوں پر بے روزگاری کے خطرات ملک میں مایوسی کو جنم دیں گے ۔ہماری قومی سیاسی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سیاسی قوتیں سیاسی لڑائی سیاسی میدان میں لڑنے کی بجائے ملک سے انتقام لینے پر تلی نظر آ رہیں ،پورا ملک میدان جنگ بنا ہوا ہے اور جب کوئی دوسرے ملک کا بڑا مہمان یہاں آتا ہے تو احتجاج کی کال دے دی جاتی ہے جب حکومتیں معیشت کے حوالہ سے سنجیدہ ہوتی ہیں تو اس عمل کو ٹارگٹ کر لیا جاتا ہے ۔

پاکستان کا سیاسی المیہ یہ ہے کہ یہاں اہل سیاست ہی ملک کے اندر انتشار خلفشار محاذ آرائی کو پروان چڑھانے اور ملک کو کمزور بنانے کا باعث بن رہے ہیں، سب اپنی اپنی ضد اور اناؤں پر ثابت قدمی دکھا رہے ہیں اور اس کا نقصان انہیں ہو نہ ہو ملک کو ہو رہا ہے ۔ہم آگے جانے کی بجائے پیچھے جا رہے ہیں جب ساری توجہ دھرنوں پر ہوگی تو پھر ملک کیسے آگے چلے گا ،معاشی بحالی اور ترقی کے عمل کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوگا۔ ایک طرف سیاسی محاذ پر ابتری کا عمل ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کا رجحان ایک طوفان بنا نظر آ رہا ہے کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ دشمن ہماری فورسز پر حملہ آور نہ ہو، ایسی کیفیت میں ضرورت تو یہ تھی کہ حکومت ادارے اپنی فوج کی پشت پر کھڑے نظر آئیں تاکہ دشمن کو پتہ ہو کہ اپنی سرزمین کے تحفظ کیلئے یہاں یکجہتی بھی ہے ،یکسوئی بھی اور سنجیدگی بھی لیکن جب سیاسی محاذ بھی چل رہا ہو، احتجاجی کیفیت معاشی صورتحال کو متاثر کر رہی ہو ،انتظامی حوالہ سے بھی استحکام نظر نہ آئے تو پھر کیسے آگے چلا جائے گا ۔ کرم ایجنسی میں شرپسندی کا عمل ہمارے خلاف کھلا اعلان جنگ ہے اور اس جنگ سے نمٹنے کیلئے جنگی بنیادوں پر ہی اقدامات کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد پر پاکستان کو ترجیح دیں گے کیونکہ ہماری شناخت پاکستان ہے اس کے سوا ہماری کوئی شناخت نہیں اور ہم سب کو یہاں جینا مرنا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں