پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کا قیام سنجیدہ کوشش قرار
تجزیہ:سلمان غنی سیاسی تنائواور ٹکرائوکی کیفیت میں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے اپنی جماعت کے سینئر اراکین پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی کے قیام کو سنجیدہ کوشش قرار دیا جا سکتا ہے
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سول نافرمانی جیسے انتہائی اقدام سے پہلے خواہاں ہیں کہ مذاکرات کے آپشن کو بھی بروئے کار لایا جائے دوسری جانب وفاقی حکومت کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ خان کے اس بیان کو بھی تلخ حالات میں مذاکرات کیلئے لچک قرار دیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا پی ٹی آئی مذاکرات میں سنجیدہ ہو تو بات آگے چل سکتی ہے مطلب یہ کہ فریقین مذاکرات کی ضرورت و اہمیت کے خواہاں ہیں مگر کون قدم آگے بڑھاتا ہے یہ مشکل ہے اور قدم اگر آگے بڑھ جاتے ہیں تو تنائو کے خاتمہ میں پیشرفت ہو سکتی ہے ۔سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے سیاستدان اور ماہرین اب کھلے انداز میں یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ سیاست میں تشدد کا نتیجہ جمہوریت کے حوالے سے اچھا نہیں ہوگا یہی وقت ہے کہ پی ٹی آئی تصادم کی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور مذاکرات کی میز پر آئے ،حکومت بھی بنیادی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی استحکام کیلئے آگے بڑھے اور ملک میں جمہوریت وسیاست کے مستقبل کو یقینی بنائے لہذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ڈائیلاگ اور مذاکرات کا عمل کیسے ممکن ہے ۔بلاشبہ اسلام آباد کیلئے پی ٹی آئی کی حکومت کیخلاف آخری کال کا عمل نتیجہ خیز نہ بن سکا اسکی بڑی وجہ جہاں حکومتی حکمت عملی تھی وہاں اسکی ناکامی میں خود پی ٹی آئی کا بھی کردار تھا ۔
اب ایک مرتبہ پھرمذاکرات کی بات کو حالات کی سنگینی کے باعث فریقین میں پیدا شدہ تحریک کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے لیکن بڑا سوال یہی ہے کہ اس پر پیشرفت ہو پائے گی سیاسی مفاہمت اور بات چیت کا دروازہ کیسے کھلے گا پی ٹی آئی کی آخری کال کی ناکامی کے بعد مفاہمت کا راستہ بچتا ہے اسلئے کہ محاذ آرائی ٹکرائواور بداعتمادی کا ماحوال گرم ہے سیاسی ماحول نے سب کو ایک کر دیا ۔ بظاہر حکومت مطمئن ہے کہ پی ٹی آئی کی فائنل کال ناکامی کے بعد سیاسی طاقت کمزور ہوئی ہے لیکن حکومت کیلئے بھی بڑے چیلنج ہیں اور سب سے بڑا چیلنج معاشی ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف مسلسل کوششوں کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ انکی یہ کوشش نتیجہ خیز ہوگی ۔ دوسری جانب حکومت سمجھتی ہے کہ اگر پی ٹی آئی اور مقتدرہ میں مفاہمت ہوتی ہے تو نقصان حکومت کو ہوگا اور اس کیلئے بند دروازے کھلیں گے اس بنا پر حکومتی حکمت عملی میں پی ٹی آئی سے مذاکرات اور مفاہمت جمہوری اصولوں کے تابع ہونا چاہئیں ۔
آج کی بڑی تلخ حقیقت بھی یہی ہے کہ پی ٹی آئی بھی مطالبات کیلئے پس پردہ قوتوں کی طرف دیکھ رہی ہے اور حکومت کی سیاسی بقا بھی انہی قوتوں کے سہارے ہے بظاہر مفاہمتی و مذاکراتی عمل ممکن نظر نہیں آ رہا مگر سیاسی قوتیں اس میں سنجیدہ ہوں تو راستے نکلتے ہیں اور مفاہمت کی کامیابی کا انحصار پرامن بقائے باہمی پر ہوتا ہے لہذا آج جب ظاہر بداعتمادی عروج پر ہو وہاں سے مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بنانا لازم ہے ، پا کستان نے آگے بڑھنا ہے تو سیاسی جمہور کو توڑنا ہوگا اور سیاست میں مفاہمت کے کارڈ کو بروئے کار لانا ہوگا ۔ حکومت کو بھی حکومتی حصار سے باہر آ کر سیاسی ڈائیلاگ پر اعتماد کرنا چاہئے اورحکومت میں شامل سیاسی سوچ و اپروچ کے حامل ذمہ داران پر کمیٹی تشکیل دینی چاہئے ایک مرتبہ اس کارڈ کو بھی آزمانا چاہئے بالآخر یہی کارآمد ہوگا مقتدرہ خود تو مذاکرات کیلئے تیار نہیں البتہ اس نے راستہ دکھا دیا ہے کہ بات حکومت سے ہی کرنا ہوگی۔