دوحہ معاہدے کی نفی افغان حکومت کے خاتمہ کا باعث بن سکتی
(تجزیہ:سلمان غنی) دوحہ معاہدہ میں اہم بات طالبان پر ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی سرزمین کا دہشتگردی کیلئے استعمال بند کرینگے اور ہمسایہ ممالک کی شکایات کا ازالہ ہوگا مگر طالبان حکومت کے قیام کے باوجود افغان سرزمین کا دہشتگردی کیلئے استعمال جاری رہا خصوصاً ٹی ٹی پی اور کالعدم تنظیموں کے مسلح دستے یہاں مراکز قائم کر کے دہشتگردی کے منتظم سلسلہ کو ملاتی رہی، پاکستان نے بارہا طالبان انتظامیہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی شواہد فراہمی مطالبہ پر شواہد پھر فراہم کئے لیکن شکایات کا ازالہ نہ ہوسکا۔
طالبان ترجمان یہ کہتے ہوئے الزام تراشی کرتے ہیں کہ آپ اپنی سرزمین پر امن بحال کریں یہی وجہ ہے کہ اب وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ میں اورترجمان آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے اس پر یس کانفرنس کے ذریعے افغان سرزمین کے دہشتگردی کیلئے استعمال کوٹارگٹ کرتے ہوئے طالبان انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ انکی سرزمین کا دہشتگردی کیلئے استعمال بند ہونا چاہیے اور یہ کہ پاکستان میں دہشتگردی کے تانے بانے افغان میں موجود ہشتگردوں تک جاتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ افغان سرزمین پر دہشتگردی کا عمل جاری ہے اور طالبان انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں کیونکر ادا نہیں کر پارہے اور کیا افغان فورسز اس عمل پر سنجیدہ بھی ہیں یا نہیں ویسے تو دیکھا جائے تو طالبان انتظامیہ کوئی منتخب نہیں عبوری حکومت ہے لیکن طالبان انتظامیہ نے دوحہ میں یہ یقین دہانی کرائی تو کہ وہ دہشتگردی کے سد باب میں نا صرف یہ کہ اپنا کردار ادا کرینگے بلکہ دہشتگردی کے لیے انکی سرزمین استعمال نہیں ہوگی لیکن طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ابتک یہ سلسلہ تھما اور رکا نہیں جسکی بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ طالبان انتظامیہ اس پر سنجیدہ نہیں،طالبان حکومت کی ٹی ٹی پی بارے نرمی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔اگر طالبان انتظامیہ کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو وہ اب خاموش تماشائی رہ گیا ہے اور وہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی محض اسلئے خاموشی اختیار کئے نظر آرہی ہے کہ یہ سارا مذموم کا عمل اب انکی دسترس سے باہر ہے لیکن پاکستان کیلئے بڑا مسئلہ ہے کہ طالبان انتظامیہ اس عمل کے حوالے سے خود کو جوابدہ نہیں سمجھ رہی اور اپنی ذمہ داری کے احساس کی بجائے اب پاکستان پر الزام تراشی پر اتر آتی ہے لہذا گیند پاکستان کی کورٹ میں ہے کہ انہیں دوحہ معاہدہ کی بنیاد پر عالمی اور علاقائی دباؤ کا بندوبست کرنا ہوگا کیونکہ طالبان دہشتگردی اور عسکریت پسندی کے حوالے سے خود کو جوابدہ نہیں سمجھتے ۔