دنیا بھارت کو صرف بالی وڈ کی آنکھ سے دیکھتی ہے جس میں ہیرو‘ ہیروئن کی خوبصورتی نے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔ وہ یوگا اور ہندو مت کے بارے مبہم خیالات کے علاوہ کچھ نہیں جانتے‘ مگر تصویر کا دوسرا رُخ بہت بدصورت ہے۔ سیکولر و جمہوری روایات کے حامی ہندوستانی خود یہ گواہی دیتے ہیں کہ ہندوستان ایک ڈوبتا ہوا جہاز ہے‘ جس میں بدترین کرپشن‘ سیاسی‘ سماجی و اخلاقی گراوٹ اور دم توڑتے سیکولر ازم نے مودی کے شائننگ انڈیا کو بے نقاب کر دیا ہے‘ مودی کا شائننگ انڈیا ٹوٹ رہا ہے۔ انصاف‘ اعتماد‘ ہمدردی اور غیرجانبداری جیسے اوصاف اکثریتی ہندوستانیوں کے لیے اجنبی بن چکے ہیں۔ وہ صحیح اور غلط میں فرق نہیں کر سکتے۔ بھارت کے تمام ادارے کھوکھلے اور کرپشن سے اَٹے ہوئے ہیں۔ وہاں آئین اور قانون کی کوئی اہمیت نہیں اور اعلیٰ قومی اداروں کو چلانے والی قوتیں رشوت اور کرپشن کو ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔ چاہے آپ اعلیٰ ترین سیاسی رہنماؤں سے رجوع کریں یا سب سے چھوٹے بیوروکریٹس سے‘ وہ کھلم کھلا اور ڈھٹائی سے رشوت مانگتے ہیں۔ وہاں مجرموں کی آزادی پر جشن منایا جاتا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ وہاں لوگ فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ گھر کا کرایہ ادا نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے مقامی حکام کو رشوت دی رکھی ہے تاکہ اس کا مالک مکان اسے مکان سے باہر نہ پھینک سکے۔ جب کسی معاشرے میں دھوکہ دہی اور فریب عام ہو جائے تو پھر وہاں انصاف معدوم ہو جاتا ہے۔ اونچی ذات والے ہندوستانی نچلی ذات والوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں جبکہ نچلی ذات کے لوگ اپنے سے نچلی ذات کے لوگوں سے یہ طے کرنے کیلئے لڑتے ہیں کہ کون برتر ہے اور کون بد تر۔ بھارتی سماج میں بداعتمادی اور من مانی کا ایک چکر جاری ہے۔
ہندوستان ایک غیراخلاقی‘ غیرمعقول اور اقدار سے عاری معاشرہ ہے۔وہاں تہذیب نام کی چیز آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کا تصور ہندوستان کیلئے ناقابلِ فہم ہو چکاہے۔ آج ہندوستان ماضی کے مقابلے میں زیادہ توہم پرستی میں جکڑا ہوا ہے۔ Hedonism عروج پر ہے اور خاندان ٹوٹ رہے ہیں۔ زیادہ تر ہندوستانی پیسہ کمانے سے آگے کچھ نہیں سوچتے۔ مودی حکومت کے دعویٰ کے مطابق بھارت اگلے تین برس میں پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت کے ساتھ دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ اس دعوے کو تقویت دینے کیلئے وہ آئے روز نت نئے دعوے کر رہے ہیں کہ بے روزگاری کم ہوئی ہے اور غربت کی شرح میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ترقی بھارت کے محض بڑے شہروں تک ہی محدود رہے گی یا کسی دور دراز‘ سڑک‘ بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم گاؤں کے باشندے کی سالانہ آمدن بھی بہتر ہو پائے گی یا پھر وہ تنگدستی کی زندگی بسر کرتے ہوئے کسی نہ کسی بیماری کی وجہ سے دم توڑتا رہے گا؟ گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان دنیا کے اُن 45 ممالک میں شامل ہے جہاں بھوک و افلاس سنگین سطح پر ہیں۔ وہ اپنے پڑوسی ممالک نیپال‘ بنگلا دیش اور پاکستان سے بھی کافی نیچے آ چکا ہے۔
بھارت میں برسر اقتدار جماعت بی جے پی بدزبانی اور بدتمیزی کی تہذیب کو پروان چڑھا رہی ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی دشنام طرازی کے کلچر کو فروغ دے رہی ہے۔ بھارت اقلیتوں کیلئے جہنم بن چکا ہے‘ مسلمان تو خصوصاً ہندو راشٹر کے نقشے سے باہر ہیں‘ یہ نہ صرف موجودہ حکومت کا منصوبہ ہے بلکہ گرو گولولکر کے ہندو راشٹر کے منصوبے میں واضح طور سے تحریر ہے کہ ہندو سماج (سمپورن سماج) میں مسلمانوں کو جگہ دینا ممکن ہی نہیں۔ 1947ء سے لے کر آج تک سیکولر ازم نے بھارت کی اصل تصویر پر جو پردہ ڈال رکھا تھا‘ وہ اب اُٹھ رہا ہے اور اصل حقیقت واشگاف ہو رہی ہے ۔ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگائیں‘ اگر وہ یہ نعرہ نہیں لگا سکتے تو پاکستان چلے جائیں۔ یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ ہندوستان استبدادی قوم پرستی اور مذہبی فاشزم کی سمت جا رہا ہے۔
بھارت انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں میں سرفہرست ہے۔ بھارت میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مذہبی انتہا پسندی‘ اقلیتوں پر مظالم اور شہریت ترمیمی قانون سر فہرست ہیں۔ بھارت میں نہ صرف اقلیتوں کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں بلکہ ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک بھی کیا جارہا ہے۔ 1948ء سے اب تک مظلوم کشمیری ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ پانچ اگست 2019ء کو ہندوستان نے آرٹیکل 370کی تنسیخ سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کر دی تھی۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران تقریباً ایک ہزار سے زائد کشمیری شہید جبکہ 25ہزار سے زائد کو گرفتار کیا گیا۔ اس عرصے کے دوران دو سو سے زائد خواتین زیادتی کا شکار ہوئیں جبکہ سینکڑوں بچے یتیم ہو گئے۔ آرٹیکل 370کی تنسیخ کے بعد سے اب تک مسلمانوں کی 1200سے زائد املاک کو نذرِ آتش کیا جا چکا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں‘ مسیحیوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں پر زمین تنگ ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت میں تقریباً 500سے زائد مساجد اور مزارات کو شہید کیا جا چکا ہے۔ چھ دسمبر 1992ء کو اُتر پردیش کے شہر ایودھیا میں انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ 2023ء میں بھارت کی 23ریاستوں میں مسیحیوں کے خلاف 400 تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ اگست 2008ء کو ہندو انتہا پسندوں نے ریاست اڑیسہ کے ضلع کندھمال میں‘ جہاں بی جے پی کی حکومت تھی‘ سینکڑوں مسیحیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ چار دن تک جاری رہنے والے ان فسادات میں مسیحی آبادی کے 600گاؤں اور 400 سے زائد چرچ نذرِ آتش کیے گئے تھے۔ صرف جنوری تا جون 2022ء میں مسیحی آبادی کے خلاف 274 پُرتشدد واقعات رپورٹ ہوئے۔ بھارت میں اب تک دلت خواتین کے ساتھ زیادتی کے چار لاکھ سے زائد مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ مودی حکومت نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ڈیجیٹل انڈیا کا شور مچا رکھا ہے مگر دلتوں اور پسماندہ افراد کی حالت میں بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ یقینا مودی کے ہندوستان میں نچلی ذات کے ہندوؤں کا وجود خطرے میں ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو آف انڈیا کی سالانہ رپورٹ نے مودی سرکار کے جمہوریت کے دعووں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں نچلی ذاتوں کے ہندوؤں کے خلاف ڈھائی لاکھ سے زائد نفرت انگیز جرائم رپورٹ ہوئے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق اس فہرست میں ریاست اُتر پردیش‘ جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے‘ 13ہزار جرائم کے ساتھ سر فہرست ہے۔ اس ریاست میں رہنے والے تقریباً 90 فیصد ہندو نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت نچلی ذات کے ہندوؤں کے خلاف جرائم سے متعلق 71ہزار سے زائد مقدمات ہندوستانی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق نچلی ذات کے ہندوؤں کے خلاف جرائم میں سزا کی شرح 15فیصد سے بھی کم ہے ۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دلت ہندوؤں کے خلاف جرائم میں 66فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 45فیصد ہندو کسی دوسرے مذہب یا نچلی ذات کے ہندوؤں کو بطور ہمسایہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ آبادی کا 25فیصد ہونے کے باوجود دلت ہندو معاشرتی تنہائی‘ سماجی تفریق اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ درحقیقت بھارت میں آج کرپشن‘ جھوٹ‘ نفرت‘ ظلم اور تشدد کا راج ہے۔ ضروری ہے کہ عالمی برادری بھارت میں جاری انسانی حقوق کی سنگیں خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔