امریکہ میں حالیہ قیام کے دوران میرا دوست ڈاکٹر احتشام قریشی اور ریحانہ بھابی ریاست ڈیلاویئر میں ایک پاکستانی ریسٹورنٹ پر ڈنر کرانے لے گئے جہاں چند پاکستانی مہربان مجھے دیکھ کر میز پر آ گئے۔ ریسٹورنٹ پر کھانا اور سروس بہت اچھی تھی۔ اگلا مرحلہ یقینا پاکستانی حالات پر گپ شپ کا تھا۔ ایسی صورت میں ایک آپشن تو یہ ہوتا ہے کہ آپ دوسرے لوگوں کی رائے سن لیں‘ بحث میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر بندے کی سوچ اور رائے ہے‘ میری چند منٹ کی گفتگو سے بھلا وہ کیوں اپنی سوچ بدلے گا۔ جب میں خود اپنی رائے کسی کی باتوں پر تبدیل نہیں کرتا تو دوسرے میری باتوں پر کیوں رائے بدلیں؟ سیاسی بحث مباحثہ چند منٹ کی ٹھرک ہوتی ہے اور اسے اس طرح ہی لینا چاہیے۔ رات گئی بات گئی۔ اس طرح کی بحث میں نہ کوئی فاتح ہوتا ہے نہ ہی شکست خوردہ۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چونچیں لڑانے کے بعد خود کو فاتح سمجھ کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ کبھی سنجیدگی سے بحث میں حصہ لے لیتا تھا لیکن وقت کے ساتھ احساس ہوا کہ ایسی بحث سے آپ صرف تلخیاں سمیٹ کر اٹھتے ہیں۔ لیکن میرا ایک مسئلہ رہا ہے کہ اگر کوئی بندہ بات کرنا چاہ رہا ہو اور میں اسے نظر انداز کروں تو مجھے برُا لگتا ہے۔ میں خود کو اس کی جگہ رکھتا ہوں کہ اگر مجھے کوئی نظر انداز کرے تو میرا سارا دن خراب گزرے گا۔ اس پر تو جو غصہ آئے گا وہ آئے گا مجھے اپنی تذلیل پر‘ اپنی ذات پر بھی غصہ آئے گا۔ لہٰذا یہی سوچ کر میں ہمیشہ مثبت انداز میں جواب ضرور دے دیتا ہوں تاکہ اگلا بندہ خود کو اہم سمجھے۔ اسے لگے کہ اس کی بات یا سوال کو اہم سمجھا گیا تھا۔
خیر جب کھانے کے بعد میز کے گرد کچھ چہرے اکٹھے ہوئے تو یقینی طور پر موضوع پاکستانی سیاست‘ عمران خان اور مقتدرہ کا کردار تھا۔ اس گفتگو کے دوران ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھ لیا کہ آپ مقتدرہ کو گالی کیوں نہیں دیتے؟ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا: ایک صحافی جب ٹی وی پر بیٹھا ہو یا اخبار میں لکھتا ہو تو اسے مناسب الفاظ میں تنقید کرنی ہوتی ہے۔ میری صحافیانہ تربیت پرنٹ میڈیا سے ہوئی تھی جہاں ایک ایک لفظ کو کم از کم تین چار سینئر لوگ مختلف مراحل پر چیک کرتے تھے۔ پہلے شخص کی کوشش ہوتی تھی کہ ایک ہزار الفاظ کی سٹوری کو پانچ سو الفاظ تک لانا ہے‘ جسے ہم ایڈیٹنگ کہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ سٹوری دوسرے کے پاس جاتی اور وہ اس میں سے مزید پچاس‘ سو لفظ کم کردیتا۔ جس نے وہ سٹوری فائنل کرنی ہوتی تھی وہ اس میں سے مزید غیرضروری الفاظ نکالنے کی کوشش کرتا۔ اخباری صحافت میں ایک ایک لفظ پر بڑی توجہ دی جاتی ہے کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں کیونکہ ایک دفعہ تحریر یا خبر چھپ گئی توپھر وہ آپ کی نہیں رہی اور اس کے نتائج ہوتے ہیں۔ اس طرح پرنٹ میڈیا سے جو لوگ ٹی وی شوز کی طرف آئے وہ لاکھ ریٹنگز کے لیے اپنا لہجہ یا زبان بگاڑنا چاہیں‘ وہ اب بھی پروفیشنل انداز میں بات کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ آج بھی خبر کو خبر کی طرح پیش کریں گے اور اپنے سیاسی تجزیہ میں مناسب لہجہ اختیار کریں گے۔
آج کل پاپولرازم کے دور میں اپنی زبان اور لہجے کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر آپ زبان پر کنٹرول کرتے ہیں تو لوگوں کو لگتا ہے آپ ڈر گئے ہیں۔ وہ آپ کے لہجے میں سے دلیل یا منطق تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ بات میں وزن ہے یا نہیں۔ وہ آپ کے لہجہ پر غور کرتے ہیں کہ آپ کے منہ سے کسی پر تنقید کرتے وقت جھاگ نکل رہی ہے یا نہیں اور آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی ہیں اور سرخ ہورہی ہیں تو آپ واقعی بہت بڑے صحافی اور یوٹیوبر ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے یہ رجحان بڑھ گیا ہے۔ نوجوانوں نے سوشل میڈیا جوائن کیا اور خود کو راتوں رات مشہور کرنے کے لیے جس طرح کا لہجہ اور جارحانہ انداز اختیار کیا‘ اس نے لوگوں کے ذہن میں امیج بنا دیا ہے کہ اگر آپ نے اپنے پروگرام یا ویلاگ میں گالی نہیں دی تو آپ صحافی نہیں ۔ مجھے ایک صاحب کہنے لگے کہ آپ فلاں فلاں صاحب کی طرح گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ میں نے کہا: اچھا ہے کوئی اور بندہ وہ گفتگو کررہا ہے جو آپ کو اچھی لگتی ہے اُسے سنا کریں۔ آپ ہر ایک سے توقع کیوں رکھتے ہیں کہ جو آپ کا فیورٹ بندہ گفتگو کرتا ہے اس طرح دیگر لوگ بھی کریں۔ میں بھی تو شکایت کرسکتا ہوں کہ جو گفتگو میں کرتا ہوں‘ وہ گفتگو فلاں صاحب کیوں نہیں کرتے۔ جیسے آپ کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کی طرح باتیں کرنی چاہئیں تو میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ وہ میری طرح گفتگو کیوں نہیں کرتے؟
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان سے اچھی خبریں نہیں آتیں۔ لوگ پاکستان سے نکل رہے ہیں۔ میں نے کہا: دنیا کا کوئی ایک ملک بتائیں جہاں سے لوگ امیگریشن کر کے دوسرے ملکوں میں نہیں جاتے۔ کہنے لگے: لیکن وہ غیرقانونی طور پر نہیں جاتے۔ میں نے کہا: ابھی آپ نے ایک کلپ دیکھا ہے انڈیا کے شہری غیرقانونی طور پر میکسیکو سے امریکہ داخل ہورہے تھے۔ ابھی پورا ایک جہاز غیرقانونی تارکین وطن کا واپس انڈیا بھیجا گیا ہے۔ کہنے لگے: پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہت خراب ہے۔ میں نے کہا ‘بالکل ہو گی‘ کیا امریکہ اور برطانیہ سے بھی زیادہ خراب ہے؟ امریکہ میں ہر پندرہ دن بعد کسی نہ کسی سکول میں شوٹنگ ہوتی ہے جس میں بے چارے معصوم بچے مارے جاتے ہیں اور مارنے والے بھی بچے ہیں۔ بارک اوبامہ اور جو بائیڈن روتے رہے لیکن گن لابی کے دبائو تلے قانون نہ بدل سکے۔ والدین بچوں کو سکول بھیج کر کتنے سٹریس میں رہتے ہوں گے کہ ان کا بچہ محفوظ ہے یا نہیں۔ کم از کم پاکستان کے سکولوں میں ہر ہفتے بچے گن اُٹھا کر کلاس فیلوز اور استاد کو قتل نہیں کرتے۔ اسی طرح لندن میں چاقو کی وارداتیں عام ہیں‘ روز کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا ہے۔ ابھی وہاں پندرہ سو بندے گرفتار ہیں جنہوں نے فسادات کیے۔ چلیں امریکہ کی مثال دیتے ہیں جہاں ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا۔کہنے لگے: یہاں بڑا قانون ہے۔ میں نے کہا: وہی قانون جس کے تحت بائیڈن نے اپنے بیٹے کے جرائم معاف کر دیے تاکہ وہ جیل نہ جائے۔ کہنے لگے: یہاں کوئی اقربا پروری نہیں ہوتی۔ میں نے کہا :واقعی ؟ بولے: جی بالکل۔ میں نے ہنس کر کہا :پکا ؟ بولے :جی پکا۔ تو میں نے کہا: شاید آپ نے نہیں پڑھا آپ کے نئے صدر ٹرمپ نے ابھی اپنی ایک بیٹی کے سسر کو مڈل ایسٹ میں نمائندہ خصوصی مقرر کیا ہے تو دوسری بیٹی کے سسر کو ایک ملک میں سفیر لگانے کا عندیہ دیا ہے۔کہنے لگے: آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا: کہنے کا مطلب ہے دنیا کا ہر ملک اپنے اپنے مسائل کا شکار ہے بس مسائل کی نیچر مختلف ہے۔آئیڈیل حالات آپ کے بھی نہیں ہیں۔
عمران خان پر بھی گفتگو ہوئی جس کی تفصیل پھر سہی۔
کھانا کھا کر باہر نکلے تو ڈاکٹر احتشام بولے :شاہ جی گفتگو بڑی اچھی رہی لیکن لوگ زیادہ ہوتے تو مزہ آتا۔ میں نے کہا: شاہ جی اگر ایک بندہ بھی ہوتا تو بھی میں اتنی ہی سنجیدگی کے ساتھ اس اکیلے بندے کیساتھ بات کرتا جتنی سنجیدگی کیساتھ میں اب درجن بھر لوگوں سے کررہا تھا۔ایک بندہ بھی اگر آپ کو غور اور سنجیدگی سے سننا چاہتا ہے تو اس سے بات کریں۔ ہمارے ہاں خامیاں بہت ہیں لیکن کس ملک میں نہیں ہیں۔آپ امریکہ کے شہری ہیں‘ بائیڈن نے بیٹے کے جرائم معاف کیے تو یہاں پاکستانی امریکیوں نے کوئی احتجاج کیا یا آپ میں سے کسی نے ویلاگ کیا؟ ٹرمپ نے دو بیٹیوں کے سسر کو اعلیٰ عہدے دیے کوئی آپ نے احتجاج کیا؟ وہ بولے: ہم کیوں کرتے۔ میں نے کہا :آپ امریکی شہری ہیں۔ آپ پاکستان کے حالات پرتو احتجاج کرتے ہیں لیکن جس ملک میں رہتے ہیں وہاں بائیڈن اور ٹرمپ کے ایسے کارناموں پر آپ کی آواز کیوں خاموش ہوجاتی ہے؟