مذاکراتی ٹیم کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات حکومتی ذمہ داری
تجزیہ:(سلمان غنی) حکومت اور پی ٹی آئی میں مذاکراتی عمل بحالی اور تسلسل مسئلہ بنتا جا رہا ہے اس میں ایک تو فریقین میں اعتماد بحالی کا فقدان ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم مذاکراتی عمل کیلئے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کو لازم قرار دے رہی ہے اور اس حوالے سے جیل میں سازگار ماحول چاہتی ہے۔
حکومتی ٹیم نے دوسری میٹنگ میں مذاکراتی ٹیم کو اپنے لیڈر سے ملاقات یقینی بنانے کا عندیہ دیا تھا جو ابھی تک ممکن نہیں بن پا رہی اور اب پی ٹی آئی اس پر سخت ردعمل دیتی نظر آ رہی ہے ۔مذاکراتی ٹیم کی انکے لیڈر سے ملاقات کی ذمہ داری سپیکر ایاز صادق کی تھی ، انہوں نے اسکا اہتمام کرنا تھا لیکن مذاکرات والے روز ہی انہیں اپنی اہلیہ کے آپریشن کے ضمن میں ہنگامی طور پر دبئی جانا پڑا اور اب بھی وہ وہیں مقیم ہیں ،جلد واپسی کا امکان نہیں لگ رہا ،اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے یقینی بنائے ،جہاں تک جیل میں ملاقات پر خاص ماحول کی شرط کی بات ہے تووہ شاید ممکن نہ بن پائے کیونکہ جیل کے رولز ایسی اجازت نہیں دیتے ،البتہ یہ بات ضرور اہم ہوگی کہ پی ٹی آئی اپنے لیڈر اسیران اور دیگر ذمہ داران کیلئے ریلیف کیسے لینا چاہتی ہے اور اس کیلئے ان کا طریقہ کار اور لائحہ عمل کیا ہوگا یہ اہم ہوگا ،اب تک سامنے آنے والے دو مطالبات ا یسے ہیں جن میں انہیں فیصلہ خود نہیں کرنا بلکہ فیصلہ سا زوں کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا کیونکہ اپنے لوگوں کی رہائی،9مئی اور 26نومبر کے واقعات پر کمیشن کا قیام ایسے مطالبات ہیں جن پر اسٹیبلشمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا ،جہاں تک تحریری مطالبات کا سوال ہے تو نظر یہ آ رہا ہے کہ یہ مطالبات باقاعدہ اور تحریری طور پر دینے سے اسلئے گریزاں ہے کہ اس سے اس کا سیاسی کیس متاثر ہوگا اور مطالبات کی ناکامی پر حکومت انکو پی ٹی آئی کیخلاف استعمال کرے گی۔ حکومت نے جوابی طور پر اپنے مطالبات طے کر رکھے ہیں جس میں مذاکراتی عمل کو ذاتی و سیاسی مفادات سے بالاتر رکھ کر قومی ایشو سے منسلک کرنے کی بات ہوگی ، مجوزہ مطالبات میں مذاکرات کو معاشی مضبوطی دہشتگردی کے سدباب ودیگر قومی معاملات سے مشروط کیا جا رہا ہے ۔