سپریم کورٹ: بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرار کو توہین عدالت کا نوٹس

سپریم کورٹ: بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرار کو توہین عدالت کا نوٹس

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ نے آئینی ترمیم کے بعد بینچز کے اختیارات سے متعلق کیس مقرر نہ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا مجھے سمجھ نہیں آرہی دو یا تین ذہنوں کے مقابلے میں ایک چیف جسٹس کیسے بہتر ہو سکتا ہے؟

سپریم کورٹ میں آئینی بینچز اور ریگولر بینچز کے اختیارات معاملے پر جسٹس منصور شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کے سامنے بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کراچی سے آیا ہوں، آج مقدمہ سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوا، جسٹس منصور شاہ نے کہا معلوم کرلیتا ہوں ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس پیش ہو کر بتائیں آج کیس کیوں سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوا۔ مختصر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی، ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ ذوالفقار علی عدالت پیش ہوئے اوربتایا ججز کمیٹی اجلاس ہوا، فیصلہ کیا گیا کہ کیس 27 جنوری کو آئینی بینچ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کیا جائے ۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیئے میں ججز کمیٹی کا ممبر ہوں، مجھے پتا ہی نہیں چلا ججز کمیٹی اجلاس کا ۔ڈپٹی رجسٹرار نے کہا ججز کمیٹی اجلاس کا فیصلہ فائل کیساتھ لگا ہوا ہے ، جسٹس عائشہ ملک نے کہا ہمارے سامنے مقدمات سماعت کیلئے مقرر تھے ، پورے ہفتے کے فکس مقدمات تبدیل ہو گئے ، اسکی تفصیل بھی بتائیں۔جسٹس منصور شاہ نے ڈپٹی رجسٹرار سے کہا ہم ٹی روم میں بیٹھے ہوئے ہیں ہمیں ججز کمیٹی اجلاس کے منٹس اور کیسز تبدیل کرنے بارے بتائیں، ججز کمیٹی اجلاس کے میٹنگ منٹس بھی لیکر آئیں، ہمیں بتائیے گا ہم دوبارہ عدالت آجائیں گے ۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی، ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو توہین عدالت کے تحت شوکاز نوٹس جاری کر دیا، عدالت نے کہا ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وضاحت دیں، کیس کی سماعت آج ساڑھے 9 بجے پہلے نمبر پر کرینگے ، 16جنوری کو عدالت نے ہدایت کی تھی کہ 20 جنوری کو ایک بجے کیس سماعت کیلئے مقرر کیا جائے ۔

سپریم کورٹ نے کہا ہم نے حکم نامے میں کہا تھا کہ اسی بینچ کے سامنے کیس مقرر کیا جائے ، آج کیس کی کازلسٹ جاری نہیں کی گئی، ایڈیشنل رجسٹرار خرابی صحت پر عدالت نہیں آئے ، ہمیں سپریم کورٹ آفس کی جانب سے بتایا گیا ججز کمیٹی نے مذکورہ کیس 27 جنوری کو آئینی بینچ کے سامنے مقرر کیا ہے ، ججز کمیٹی کے جس اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا اسکے تاحال میٹنگ منٹس آفس کو موصول نہیں ہوئے ۔ 16 جنوری کے جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں عدالتی حکم کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے ، ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اس بینچ کے سامنے ٹیکس سے متعلق تمام مقدمات بھی منسوخ کر دیئے گئے ، عدالت کو بتایا گیا کہ اب ایک ریسرچ آفیسر طے کرے گا کہ کون سے مقدمات آئینی بینچ میں جائیں گے ، ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ کیا اب ریسرچ آفیسر ہمیں بتائے گاکہ کون سا کیس کہاں مقرر ہوگا؟ جسٹس منصور شاہ نے کہا یہ کیس انتظامی کمیٹی کے پاس چلا گیا،اگر جسٹس عرفان سعادت مصروف ہیں تو کوئی اور صاحب بینچ میں آ جائیں، کمیٹی کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کیس ہی نہ لگائے ۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کمیٹی کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں وہ کیس ہی ٹرانسفر کر دے ، چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت یہ بینچ آئینی بینچ میں جائے گا یہ بحث ہماری عدالت میں بھی ہو سکتی تھی۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایک صحافیوں والا کیس بھی ہوا تھا جس پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا، اس کیس کے فیصلے میں طے ہوا تھا کہ اگر کوئی بینچ چیف جسٹس کو معاملہ بھجواتا ہے تو اس چیف جسٹس اس معاملے کو دیکھے گا۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا سمجھ نہیں آ رہی دو یا تین ذہنوں کے مقابلے میں ایک چیف جسٹس کیسے بہتر ہو سکتا ہے، جسٹس منصور شاہ نے کہا یہ کیس ہماری عدالت میں فکس کرنے کے علاوہ کسی دوسری عدالت میں بھی مقرر نہیں کیا گیا، یہ تو پورا کیس ہی غائب کر دیا گیا، ججز کمیٹی اگر چاہتی تو پورا بینچ ہی دوبارہ تشکیل دے سکتی تھی۔

لاہور (محمد اشفاق سے )سپریم کورٹ کے جسٹس منصور شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے پر چیف جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس امین الدین خان کو خط لکھ دیا جس میں کہا گیا 13 جنوری کو جسٹس منصور شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان کے بینچ میں کچھ کیسز زیر سماعت تھے ۔ ریاست بنام دیوان موٹرز کے کیس کے دوران عدالت کے سامنے ایک اہم سوال اٹھا کہ کیا ریگولر بینچ مذکورہ کیسز کی سماعت کر سکتا ہے ؟ عدالت نے وکلا سے اس حوالے سے دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی کر دی تھی۔ 16 جنوری کو بینچ دوبارہ تشکیل دیا گیا اور جسٹس عقیل عباسی کو شامل کر دیا گیا۔ جسٹس عقیل عباسی نے بطور جج سندھ ہائیکورٹ اسی کیس کا فیصلہ تحریر کیا تو وہ یہ کیس نہیں سن سکتے تھے ۔ ہم نے آفس کو ہدایت جاری کی کہ 20 جنوری کو کیس پہلے سے موجود بینچ کے سامنے پیش کیا جائے ۔ آج ہمیں بتایا گیا مذکورہ کیسز فکس نہیں ہو سکتے ، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے 17 جنوری کو معاملہ اٹھایا تھا جسٹس منصور شاہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ چونکہ انہوں نے آرڈر پاس کر دیا ہے لہذا ان کا نقطہ نظر ریکارڈ پر موجود ہے ۔

انکے آرڈر کو من و عن تسلیم کیا جائے اور انہیں کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ہم حیران و پریشان ہیں کہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود مذکورہ کیسز کسی بھی بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوئے ۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس معاملے کو اٹھاتی۔ آفس کو صرف یہ ہدایت کی گئی تھی کہ کیسز کو دوبارہ پہلے سے قائم بینچ میں فکس کیا جائے ۔ اگر کمیٹی نے یہ مدعا اٹھایا بھی تھا تو وہ دوبارہ پہلے جیسا بینچ قائم کر کے سماعت آج کیلئے مقرر کر سکتی تھی۔ کمیٹی جسٹس عقیل عباسی کی بجائے کسی نئے جج کو شامل کر کے نیا بینچ بھی قائم کر سکتی تھی۔ کسی بھی صورت میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔ کمیٹی پر لازم تھا کہ وہ 20 جنوری کیلئے ان کیسز کو کسی بینچ کے سامنے فکس کرتی۔ ہمارے بینچ کی تمام ہفتے کی کاز لسٹ کو تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ آفس کی جانب سے جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننا نہ صرف ادارے کی عزت کو کم کرنے کے مترادف ہے بلکہ قانون سے بھی انحراف ہے ۔ اس عمل سے عدالت کے بینچز کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ ایسی نافرمانی توہین عدالت کے مترادف ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم کرتی ہے ۔ عدالت کی جانب سے 16 جنوری کو پاس کیا گیا آرڈر پر عمل ہونا چاہیے ۔ آفس کو ہدایت کی جا سکتی ہے کہ وہ آج ایک بجے مذکورہ کیس کو فکس کرے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں